Random Guy

غزل

روٹھنا مجھ سے مگر خود کو سزا مت دینا
زلف  رخسار سے کھیلے تو ہٹا مت دینا

میرے اس جرم کی قسطوں میں سزا مت دینا
بے وفائی کا صلہ یار وفا مت دینا

کون آئے گا دہکتے ہوئے شعلوں کے پرے
تھک کے سو جاؤں تو اے خواب جگہ مت دینا

ساری دنیا کو جلا دے گا ترا آگ کا کھیل
بھڑکے جذبات کو آنچل کی ہوا مت دینا

خون ہو جائیں نہ قسمت کی لکیریں تیری
میلے ہاتھوں کو کبھی رنگے حنا مت دینا

اوچھی پلکوں پہ حسیں خواب سجانے والے
میری آنکھوں سے میری نیند اڑا مت دینا

سوچ لینا کوئی تاویل مناسب لیکن
اس ہتھیلی سے مرا نام مٹا مت دینا
1 Response

ایک تبصرہ شائع کریں