Random Guy


ماں
صدیق ثانی

تو جا کے سو گئی مٹی کی اوڑھ کر چادر
سکھا گئی مری آنکھوں کو جاگنا شب بھر

میں اب جو روؤں تو آنسو زمین پر ٹپکیں
کوئی نہیں جو سمیٹے انہیں گوہر کہہ کر

کوئی نہیں جو تشفی کو ہاتھ سر پہ رکھے
کوئی نہیں جو دعاؤں کی بارشیں کر دے

میں روٹھ جاؤں کسی سے کوئی مناتا نہیں
میں ٹوٹ پھوٹ کے بکھروں کوئی اٹھاتا نہیں

میں بھوک پیاس کے صحرا میں جتنی دیر جلوں
کسی کو فکر نہیں ہے کہ میں کہاں پر ہوں

کوئی اتار کے لاتا نہیں  صلیب سے اب
کوئی بلاتا نہیں زور سے، قریب سے اب

یہ رنج و غم کی تپش اب مجھے جلاتی ہے
میں اب جو روؤں تو  تقدیر مسکراتی ہے

وہی ہے زعم وہی بال و پر ہوا ہے وہی
میں چلنا چاہوں تو قدموں میں راستہ ہے وہی

پر ایک حرفِ دعا کی کمی جو اب ہے مجھے
اس ایک حرفِ دعا کی بڑی طلب ہے مجھے


0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں