انتخاب بسمل عظیم آبادی


سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے


بسمل عظیم آبادی







فہرست









نہ اپنے ضبط کو رسوا کرو ستا کے مجھے

خدا کے واسطے دیکھو نہ مُسکرا کے مجھے

سوائے داغ ملا کیا چمن میں آ کے مجھے
قفس نصیب ہو آشیاں بنا کے مجھے

ادب ہے میں جھکائے ہوئے آنکھ اپنی
غضب ہے تم جو نہ دیکھو نظر اٹھا کے مجھے

الہٰی کچھ تو ہو آساں نزع کی مشکل
دمِ اخیر تو تسکین دے وہ آ کے مجھے

خدا کی شان ہے میں جن کو دوست رکھتا تھا
وہ دیکھتے بھی نہیں اب نظر اُٹھا کے مجھے

مری قسم ہے تمہیں رہروان ملک عدم
خدا کے واسطے تم بھولنا نہ جا کے مجھے

ہمارا کون ٹھکانہ ہے ہم تو بسمل ؔ ہیں
نہ اپنے آپ کو رسوا کرو ستا کے مجھے
٭٭٭



کہاں آیا ہے دیوانوں کو تیرا کچھ قرار اب تک

ترے وعدے پہ بیٹھے کر رہے ہیں انتظار اب تک

خدا معلوم کیوں لوٹی نہیں جا کر بہار اب تک
چمن والے چمن کے واسطے ہیں بے قرار اب تک

بُرا گلچیں کو کیوں کہئے بُرے ہیں خود چمن والے
بھلے ہوتے تو کیا منہ دیکھتی رہتی بہار اب تک

چمن کی یاد آئی دل بھر آیا آنکھ بھر آئی
جہاں بولا کوئی گلشن میں باقی ہے بَہار اب تک

سبب جو بھی ہو صورت کہہ رہی ہے رات جاگے ہو
گواہی کے لئے باقی ہے آنکھوں میں خمار اَب تک

قیامت آئے تو ان کو بھی آتے آتے آئے گا
وہ جن کو تیرے وعدے پر نہیں ہے اعتبار اب تک

سلامت میکدہ تھوڑی بہت ان کو بھی دے ساقی
تکلف میں جو بیٹھے رہ گئے کچھ بادہ خوار اَب تک

خدارا دیکھ لے دُنیا کہ پھر یہ بھی نہ دیکھے گی
چمن سے جاتے جاتے رہ گئی ہے جو بہار اب تک

قفس میں رہتے رہتے ایک مدت ہو گئی پھر بھی
چمن کے واسطے رہتی ہے بلبل بے قرار اب تک

خبر بھی ہے تجھے میخوار تو بدنام ہے ساقی
دَبا کر کتنی بوتل لے گئے پرہیز گار اب تک

ارے دامن چھڑا کر جانے والے کچھ خبر بھی ہے
ترے قدموں سے ہے لپٹی ہوئی خاکِ مزار اب تک

یہ کہنے والے کہتے ہیں کہ توبہ کر چکے بسملؔ
مگر دیکھے گئے ہیں میکدے میں بار بار اَب تک
٭٭٭





خزاں کے جانے سے ہو یا بَہار آنے سے

چمن میں پھول کھلیں گے کسی بہانے سے

وہ دیکھتا  رہے مُڑ مُڑ کے سوئے در کب تک
جو کروٹیں بھی بدلتا نہیں ٹھکانے سے

اُگل نہ سنگِ ملامت خدا سے ڈر ناصح
ملے گا کیا تجھے شیشوں کے ٹوٹ جانے سے

زمانہ آپ کا ہے اور آپ اس کے ہیں
لڑائی مول لیں ہم مُت کیوں زمانے سے

خدا کا شکر  سویرے سے ہی آگیا قاصد
میں بچ گیا شبِ فرقت کے ناز اٹھانے سے

میں کچھ کہوں نہ کہوں کہہ رہی ہے خاکِ جبیں
کہ اس جبیں کو ہے نسبت اِک آستانے سے

قیامت آئے قیامت سے میں نہیں ڈرتا
اُٹھا تو دے کوئی پردہ کسی بہانے سے

خبر بھی ہے تجھے آئینہ دیکھنے والے
کہاں گیا ہے دو پٹّہ سرک کے شانے سے

یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہوئی بسملؔ
نہ رو سکے نہ کبھی ہنس سکے ٹھکانے سے
٭٭٭





میری دُعا کہ غیر پہ اُن کی نظر نہ ہو

وہ ہاتھ اٹھا رہے ہیں کہ یارب اثر نہ ہو

ہم کو بھی ضد یہی ہے کہ تیری سحر نہ ہو
اے شب تجھے خدا کی قسم مختصر نہ ہو

تم اک طرف تمہاری خدائی ہے اک طرف
حیرت زدہ ہے دل کی کدھر ہو کدھر نہ ہو

دُشوار تر بھی سہل ہے ہمت کے سامنے
یہ ہو تو کوئی ایسی مُہم ہے کہ سر نہ ہو

جب وہ نہ آئے فاتحہ پڑھنے تو اے صَبا
باز آگیا میں شمع بھی اب نوحہ گر نہ ہو

یہ کہہ کے دیتی جاتی ہے تسکیں شبِ فراق
وہ کون سی ہے رات کہ جس کی سحر نہ ہو

بسملؔ بتوں کا عشق مبارک تمہیں مگر
اِتنے نڈر نہ ہو کہ خدا کا بھی ڈر نہ ہو
٭٭٭





رُخ پہ گیسو جو بکھر جائیں گے

ہم اَندھیرے میں کدھر جائیں گے

اپنے شانے پہ نہ زلفیں چھوڑو
دل کے شیرازے بکھر جائیں گے

یاد آیا نہ اگر وعدے پر
ہم تو بے مَوت کے مر جائیں گے

اپنے ہاتھوں سے پلا دے ساقی
رند اک گھونٹ میں تر جائیں گے

قافلے وقت کے رفتہ رفتہ
کسی منزل پہ ٹھہر جائیں گے

مُسکرانے کی ضرورت کیا ہے
مرنے والے یونہی مر جائیں گے

ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ
یہ بُرے دن بھی گذر جائیں گے
٭٭٭



سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

اے شہیدِ ملک و ملت میں ترے اوپر نثار
لے تری ہمّت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے

وائے قسمت پاؤں کی اے ضُعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے

رَہ روِ راہِ محبت! رہ نہ جانا راہ میں
لذّتِ صحرا نوردی دوری منزل میں ہے

شوق سے راہِ محبت کی مصیبت جھیل لے
اک خوشی کا راز پنہاں جادہ منزل میں ہے

آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے

مر نے والو آؤ اب گردن کٹاؤ شوق سے
یہ غنیمت وقت ہے خنجر کفِ قاتل میں ہے

مانعِ اظہار تم کو ہے حیا، ہم کو اَدب
کچھ تمہارے دل کے اندر کچھ ہمارے دل میں ہے

میکدہ سُنسان خم الٹے پڑے ہیں جام چور
سرنگوں بیٹھا ہے ساقی جو تری محفل میں ہے

وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ وہ ارماں کی بھیڑ
صرف مٹ جانے کی اک حسرت دل بسملؔ میں ہے
٭٭٭

اب دَم بخود ہیں نبض کی رفتار دیکھ کر

تم ہنس رہے ہو حالتِ بیمار دیکھ کر

سودا وہ کیا کرے گا خریدار دیکھ کر
گھبرا گیا جو گرمی بازار دیکھ کر

اللہ تیرے ہاتھ ہے اب آبروئے شوق
دم گھٹ رہا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر

دیتا کہاں ہے وقت پڑے پر کوئی بھی ساتھ
ہم کو مصیبتوں میں گرفتار دیکھ کر

آتے ہیں میکدے کی طرف سے جناب شیخ
سرگوشیاں ہیں لغزشِ رفتار دیکھ کر

غیروں نے غیر جان کے ہم کو اُٹھا دیا
بیٹھے جہاں بھی سایۂ دیوار دیکھ کر

آتے ہیں بزمِ یاران میں پہچان ہی گیا
میخوار کی نگاہ کو میخوار دیکھ کر

اس مدھ بھری نگاہ کی اللہ رے کشش
سو بار دیکھنا پڑا ایک بار دیکھ کر

تم رہنمائے وقت سہی پھر بھی چند گام
چلنا پڑے گا وقت کی رفتار دیکھ کر

وقتِ سحر گذر گئی کیا کیا نہ پوچھئے
گردن میں ان کی سوکھے ہوئے ہار دیکھ کر

تلچھٹ مِلا کے دیتا ہے رندوں کو ساقیا
ساغر پٹک نہ دے کوئی ہشیار دیکھ کر

بسملؔ کو کیا ہے چادرِ رحمت رسولؐ کی
سائے میں لے ہی لے گی گنہگار دیکھ کر
٭٭٭



سونچنے کا بھی نہیں وقت میسّر مجھ کو

اِک کشش ہے جو لئے پھرتی ہے در در مجھ کو

اپنا طوفاں نہ دکھائے وہ سمندر مجھ کو
چار قطرے نہ ہوئے جس سے میسر مجھ کو

عمر بھر دیر و حرم نے دئیے چکر مجھ کو
بے کسی کا ہو بُرا لے گئی گھر گھر مجھ کو

شکر ہے رہ گیا پردہ مری عُریانی کا
خاک کُوچے کی تِرے بن گئی چادر مجھ کو

چُپ رہوں میں تو خموشی بھی گلہ ہو جائے
آپ جو چاہیں وہ کہہ دیں مِرے منہ پر مجھ کو

خاک چھانا کئے ہم قافلے والوں کے لئے
قافلے والوں نے دیکھا بھی نہ مُڑ کر مجھ کو

آپ ظالم نہیں ، ظالم ہے مگر آپ کی یاد
وہی کمبخت ستاتی ہے برابر مجھ کو

 انقلابات نے کچھ ایسا پریشان کیا
کہ سجھائی نہیں دیتا ہے ترا در مجھ کو

جُرأت شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن
پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو

مل گئی تشنگی شوق سے فرصت تا عمر
اپنے ہاتھوں سے دیا آپ نے ساغر مجھ کو

اب مرا جذبۂ توفیق ہے اور میں بسملؔ
خضر گم ہو گئے رَستے پہ لگا کر مجھ کو
 ٭٭٭



چمن کو لگ گئی کس کی نظر خدا جانے

چمن رہا نہ رہے وہ چمن کے افسانے

سُنا نہیں ہمیں اُجڑے چمن کے افسانے
یہ رنگ ہو تو سنک جائیں کیوں نہ دیوانے

چھلک رہے ہیں صُراحی کے ساتھ پیمانے
بُلا رہا ہے حرم، ٹوکتے ہیں بُت خانے

کھسک بھی جائے گی بوتل تو پکڑے جائیں گے رند
جناب شیخ لگے آپ کیوں قسم کھانے

خزاں میں اہل نشیمن کا حال تو دیکھا
قفس نصیب پہ کیا گزری خدا جانے

ہجوم حشر میں اپنے گناہ گاروں کو
تیرے سوا کوئی ایسا نہیں جو پہچانے

نقاب رُخ سے نہ سرکی تھی کل تلک جن کی
سبھا میں آج وہ آئے ہیں ناچنے گانے

کسی کی مست خرامی سے شیخ نالا ہیں
قدم قدم پہ بنے جا رہے ہیں میخانے

یہ انقلاب نہیں ہے تو اور کیا بسملؔ
نظر بدلنے لگے اپنے جانے پہچانے
٭٭٭





یہ بُت پھر اب کے بہت سر اٹھا کے بیٹھے ہیں

خدا کے بندوں کو اَ پنا بنا کے بیٹھے ہیں

ہمارے سامنے جب بھی وہ آ کے بیٹھے ہیں
تو مسکرا کے نگاہیں چُرا کے بیٹھے ہیں

کلیجہ ہو گیا زخمی فراق ِ جاناں میں
ہزاروں تیر ستم دل پہ کھا کے بیٹھے ہیں

تم ایک بار تو رُخ سے نقاب سرکا دو
ہزاروں طالبِ دیدار آ کے بیٹھے ہیں

اُبھر جو آتی ہے ہر بار موسمِ گل میں
اک ایسی چوٹ کلیجے میں کھا کے بیٹھے ہیں

یہ بُتکدہ ہے اِدھر آئیے ذرا بسملؔ
بتوں کی یاد میں بندے خدا کے بیٹھے ہیں

پسند آئے گی اب کس کی شکل بسملؔ کو
نظر میں آپ جو اس کی سما کے بیٹھے ہیں
٭٭٭





نگاہِ قہر ہوگی یا محبت کی نظر ہوگی

مزہ دے جائے گی دل سے اگر اے سیم بَر ہوگی

تمہیں جلدی ہے کیا جانا ابھی تو رات باقی ہے
نہ گھبراؤ ذرا ٹھہرو کوئی دم میں سحر ہوگی

ابھی سے سارے عالم میں تو اک اندھیر برپا ہے
نہ جانے کیا غضب ڈھائے گی جب یہ تا کمر ہوگی

نہ لائے گی تو کیا بے چین بھی ان کو نہ کر دے گی
ہماری آہ کیا کمبخت اتنی بے اثر ہوگی

ہم اس کو دیکھ لیں گے اور وہ ہم کو نہ دیکھے گی
نگاہِ یار کیا محفل میں اتنی بے خبر ہوگی

چلا جاتا تو ہوں بہروپ بن کر ان کی محفل میں
کہوں گا کیا رسائی گر کہیں منہ دیکھ کر ہوگی

نگاہِ لطف سے دیکھا گا مجھ کو ایک جہاں تو کیا
اگر تم دیکھ لو گے میری قسمت عرش پر ہوگی

اسیری میں بھی یادِ گل کرے گی اس طرح بلبل
قفس کے در پہ سر ہوگا، سوئے گلشن نظر ہوگی

جو بے جُرمی پہ بھی بسملؔ کو تم نے کر دیا بسمل
بتاؤ گے بھلا کیا حشر میں پُرسش اگر ہوگی
٭٭٭



تنگ آ گئے ہیں کیا کریں اس زندگی سے ہم

گھبرا کے پوچھتے ہیں اکیلے میں جی سے ہم

مجبوریوں کو اپنی کہیں کیا کسی سے ہم
لائے گئے ہیں ، آئے نہیں ہیں خوشی سے ہم

کمبخت دل کی مان گئے ، بیٹھنا پڑا
یوں تو ہزار بار اُٹھے اس گلی سے ہم

یارب! بُرا بھی ہو دلِ خانہ خراب کا
شرما رہے ہیں اس کی بدولت کسی سے ہم

دن ہی پہاڑ ہے شب غم کیا ہو کیا نہ ہو
گھبرا رہے ہیں آج سرِ شام ہی سے ہم

دیکھا نہ تم نے آنکھ اٹھا کر بھی ایک بار
گزرے ہزار بار تمہاری گلی سے ہم

مطلب یہی نہیں ہے دلِ خانہ خراب کا
کہنے میں اس کے آئیں گذر جائیں جی سے ہم

چھیڑا عدو نے روٹھ گئے ساری بزم سے
بولے کہ اب نہ بات کریں گے کسی سے ہم

تم سن کے کیا کرو گے کہانی غریب کی
جو سب کی سن رہا ہے کہیں گے اُسی سے ہم

محفل میں اس نے غیر کو پہلو میں دی جگہ
گزری جو دل پہ کیا کہیں بسمل کسی سے ہم
٭٭٭






جب کبھی نامِ محمدؐ لب پہ میرے آئے ہے

لب سے لب ملتے ہیں جیسے دل سے دل مل جائے ہے

جب کوئی غنچہ چمن کا بن کھلے مرجھائے ہے
کیا کہیں کیا کیا چمن والوں کو رونا آئے ہے

کوئی کہہ دیتا کہ اب کاہے کو قاصد آئے ہے
ضعف سے بیمار کو اٹھّا نہ بیٹھا جائے ہے

ہو نہ ہو کچھ بات ہے تب جی مِرا گھبرائے ہے
آپ آئے ہیں نہ خط ہی بھیج کر بلوائے ہے

رات بھی روتے کٹی ہے دن بھی گذرا جائے ہے
آنے والے کچھ نہیں معلوم کب سے آئے ہے

تیرے دیوانے پہ ایسی بھی گھڑی آ جائے ہے
دم بخود رہ جائے ہے سونچا نہ سمجھا جائے ہے

ایک دن وہ دن تھے کہ رونے پہ ہنسا کرتے تھے ہم
ایک یہ دن ہیں کہ اب ہنسنے پہ رونا آئے ہے

برق کو کیا جانے کیا ضد ہے نشیمن سے مرے
چار تنکوں کی قسم وہ بھی نہ دیکھا جائے ہے

ہجر کی راتوں میں بھی تنہا کہاں رہتا ہے ذہن
تم کبھی آ جاؤ ہو، دشمن کبھی آ جائے ہے

جی میں رکھتے ہیں کہیں بھی تو کسی سے کیا کہیں
شکوہ اُن کا یوں تو لب پر بار بار آ جائے ہے

بگڑی بن جاتی ہے، یہ سچ ہے مگر اے ہمنشیں
نامرادی کا بُرا ہو، جی ہی بیٹھا جائے ہے

اِک غلط سجدے سے کیا ہوتا ہے واعظ کچھ نہ پوچھ
عمر بھر کی سب ریاضت خاک میں مل جائے ہے

آپ کی اِک زُلف سلجھانے کو لاکھوں ہاتھ ہیں
میری گُتّھی بھی کوئی آ کر کبھی سلجھائے ہے
٭٭٭



اب رہا کیا ہے جو اَب آئے ہیں آنے والے

جان پر کھیل چُکے جان سے جانے والے

یہ نہ سمجھے تھے کہ یہ دن بھی ہیں آنے والے
اُنگلیاں ہم پہ اٹھائیں گے اٹھانے والے

کون سمجھائے نہ اٹھلا کے سرِ رہ چلئے
ہیں یہ انداز گنہگار بنانے والے

پوچھنے تک کو نہ آیا کوئی اللہ اللہ
تھک گئے پاؤں کی زنجیر بجانے والے

کہیں رونا نہ پڑے تجھ کو زمانے کے ساتھ
ارے او وقت کی جھنکار پر گانے والے

آپ اندازِ نظر اپنا بدلتے ہی نہیں
اور بُرے بنتے ہیں بے چارے زمانے والے

پوچھتی ہے در و دیوار سے بیمار کی آنکھ
اب کہاں ہیں وہ مرے ناز اٹھانے والے

بخدا بھول گئے اپنی مصیبت بسملؔ
یاد جب آئے محمدؐ کے گھرانے والے
٭٭٭



خزاں جب تک چلی جاتی نہیں ہے

چمن والوں کو نیند آتی نہیں ہے

جفا جب تک کہ چونکاتی نہیں ہے
محبت ہوش میں آتی نہیں ہے

جو روتا ہوں تو ہنستا ہے زمانہ
جو سوتا ہوں تو نیند آتی نہیں ہے

تمہاری یاد کو اللہ رکھے
جب آتی ہے تو پھر جاتی نہیں ہے

کلی بلبل سے شوخی کر رہی ہے
ذرا پھولوں سے شرماتی نہیں ہے

جہاں میکش بھی جائیں ڈرتے ڈرتے
وہاں واعظ کو شرم آتی نہیں ہے

نہیں ملتی تو ہنگامے ہیں کیا کیا
جو ملتی ہے تو پی جاتی نہیں ہے

جوانی کی کہانی داورِ حشر
سرِ محفل کہی جاتی نہیں ہے

کہاں تک شیخ کو سمجھائیے گا
بُری عادت کبھی جاتی نہیں ہے

گھڑی بھر کو جو بہلائے مرا دل
کوئی ایسی گھڑی آتی نہیں ہے

ہنسی بسمل کی حالت پر کسی کو
کبھی آتی تھی اب آتی نہیں ہے
٭٭٭



 ساری امید رہی جاتی ہے

 ہائے پھر صبح ہوئی جاتی ہے

 نیند آتی ہے نہ وہ آتے ہیں
 رات گذری ہی چلی جاتی ہے

 مجمع حشر میں رودادِ شباب
 وہ سنے بھی تو کہی جاتی ہے

 داستاں پوری نہ ہونے پائی
 زندگی ختم ہوئی جاتی ہے

 وہ نہ آئے ہیں تو بے چین ہے روح
 ابھی آتی ہے ابھی جاتی ہے

 زندگی آپ کے دیوانے کی
 کسی صورت سے کٹی جاتی ہے

 غم  میں پروانوں کے اک مدت سے
 شمع گھلتی ہے چلی جاتی ہے

 آپ محفل سے چلے جاتے ہیں
 داستاں باقی رہی جاتی ہے

 ہم تو بسملؔ ہی رہے خیر ہوئی
 عشق میں جان چلی جاتی ہے
٭٭٭





اب ملاقات کہاں شیشے سے پیمانے سے

فاتحہ پڑھ کے چلے آتے ہیں میخانے سے

کیا کریں جام و سبو ہاتھ پکڑ لیتے ہیں
جی تو کہتا ہے کہ اُٹھ جائیے میخانے سے

پھونک کر ہم نے ہر اک گام پہ رکھا ہے قدم
آسماں پھر بھی نہ باز آیا ستم ڈھانے سے

ہم کو جب آپ بلاتے ہیں چلے آتے ہیں
آپ بھی تو کبھی آ جائیے بلوانے سے

ارے او وعدہ فراموش پہاڑ ایسی رات
کیا کہیں کیسے کٹی تیرے نہیں آنے سے

یاد رکھ! وقت کے انداز نہیں بدلیں گے
ارے اللہ کے بندے ترے گھبرانے سے

سر چڑھائیں کبھی آنکھوں سے لگائیں ساقی
تیرے ہاتھوں کی چھلک جائے جو پیمانے سے

خالی رکھی ہوئی بوتل  یہ پتا دیتی ہے
کہ ابھی اُٹھ کے گیا ہے کوئی میخانے سے

آئے گی حشر کی ناصح کی سمجھ میں کیا خاک
جب سمجھ دار سمجھتے نہیں سمجھانے سے

برق کے ڈر سے کلیجے سے لگائے ہوئے ہے
چار تِنکے جو اُٹھا لائی ہے ویرانے سے

دل ذرا بھی نہ پسیجا بُتِ کافر تیرا
کعبہ اللہ کا گھر بن گیا بُت خانے سے


شمع بیچاری جو اک مونس تنہائی تھی
بجھ گئی وہ بھی سرِ شام ہوا آنے سے

غیر کا ہے کو سنیں گے ترا دکھڑا بسملؔ
ان کو فرصت کہا ں ہے اپنی غزل گانے سے
٭٭٭

ماخذ:
http://www.urduyouthforum.org/urduShayri_Bismil%20Azimabadi.php?poet=Bismil%20Azimabadi