غزل
حسین باندی شباب بنارسی
مے کشی کا لطف تنہائی میں کیا، کچھ بھی نہیں
یار پہلو میں نہ ہو جب تک، مزا کچھ بھی نہیں
تم رہو پہلو میں میرے، میں تمہیں دیکھا کروں
حسرتِ دل اے صنم، اِس کے سوا کچھ بھی نہیں
حضرتِ دل کی بدولت میری رسوائی ہوئی
اس کا شکوہ آپ سے اے دلربا کچھ بھی نہیں
قسمتِ بد دیکھئے، پُوچھا جو اُس نے حالِ دل
باندھ کے ہاتھوں کومیں نے کہہ دیا، کچھ بھی نہیں
آپ ہی تو چھیڑ کرپُوچھا ہمارا حالِ دل
بولے پھرمنھ پھیرکے، ہم نے سُنا کچھ بھی نہیں
کوچہؑ الفت میں انساں دیکھ کے رکھے قدم
ابتدا اچھی ہے اِس کی، انتہا کچھ بھی نہیں
حسین باندی شباب بنارسی
ایک تبصرہ شائع کریں