Random Guy


غزلِاحمد ندیمؔ قاسمی


انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

اس حسنِ اتفاق پہ لٹ کے بھی شاد ہوں
تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا

دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئ
یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا

اس رشتہء لطیف کے اسرار کیا کھلیں
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا

چھپ چھپ کے روؤں اور سرِ انجمن ہنسوں
مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا

اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر
عادی فنا کا تھا تو پجاری بقا کا تھا

ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا

حیران ہوں کہ دار سے کیسے بچا ندیم
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا


1 Response

ایک تبصرہ شائع کریں