Random Guy

ساغر صدیقی کی ایک زبردست غزل


جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں
یاد بُھولے ہوئے یاروں کے کرم آتے ہیں

لوگ جس بزم میں آتے ہیں ستارے لے کر
ہم اسی بزم میں بادیدئہ نم آتے ہیں

میں وہ اِک رندِ خرابات ہُوں میخانے میں
میرے سجدے کے لیے ساغرِ جم آتے ہیں

اب مُلاقات میں وہ گرمی جذبات کہاں
اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں

قُربِ ساقی کی وضاحت تو بڑی مشکل ہے
ایسے لمحے تھے جو تقدیر سے کم آتے ہیں

میں بھی جنت سے نکالا ہُوا اِک بُت ہی تو ہُوں
ذوقِ تخلیق تجھے کیسے ستم آتے ہیں

چشم ساغرؔ ہے عبادت کے تصوّر میں سدا
دل کے کعبے میں خیالوں کے صنم آتے ہیں
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں