Random Guy
 
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ
رزق، ملبوس ، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ
محسن نقوی

Random Guy

غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل

نہ ملا  کبھی کسی سے اسے دیوتا سمجھ کر
بھلا کیسے پوجتا پھر میں اسے خدا سمجھ کر

میں یہ چاہتا ہوں مجھ سے وہ ملے تو دوست بن کے
نہ بڑا سمجھ کے خود کو،  نہ مجھے بڑا سمجھ کر

کوئی انکو یہ بتا دے مرے منہ میں بھی زباں ہے
وہ ستم کریں گے کب تک مجھے بے نوا سمجھ کر

کئے فیصلے ہمیشہ ترے رخ کو دیکھ کر ہی
کبھی باوفا سمجھ کر، کبھی بے وفا سمجھ کر

ترا غم اٹھا رہا ہوں، ترا درد سہہ رہا ہوں
مری بندگی سی الفت کی حسیں جزا سمجھ کر

مرے عشق کو مقدر درجات دے رہا ہے
کبھی ابتدا سمجھ کر، کبھی انتہا سمجھ کر

کوئی حکم دوں اسے میں یہ نہیں مقام میرا
مری بات کاش مانے مری التجا سمجھ کر

مری باطنی حقیقت انھیں کیا دکھائی دے گی
جو مجھے ستا رہے ہیں کوئی سر پھرا سمجھ کر

 وہ زوال_ آدمیت کی ہے شاہراہ جاوید
ہے زمانہ جس کا راہی رہ_ ارتقا سمجھ کر
Random Guy
جب بھی دیکھا مرے کردار  پہ دھبا کوئی
دیر تک بیٹھ کے تنہائی میں رویا کوئی

لوگ ماضی کا بھی اندازہ لگا لیتے ہیں
مجھ کو تو یاد نہیں کل کا بھی قصہ کوئی

بے سبب آنکھ میں آنسو نہیں آیا کرتے
آپ سے ہوگا یقیناً  مرا رشتہ کوئی

یاد آنے لگا ایک دوست کا برتاؤ مجھے
ٹوٹ کر گر پڑا جب شاخ سے پتّہ کوئی

بعد میں ساتھ نبھانے کی قسم کھا لینا
دیکھ لو جلتا ہوا پہلے پتنگا کوئی

اس کو کچھ دیر سنا لیتا ہوں رودادِ سفر
راہ میں جب کبھی مل جاتا ہے اپنا کوئی

کیسے سمجھیگا بچھڑنا وہ کسی کا رانا
ٹوٹتے دیکھا نہیں جس نے ستارہ کوئی
Random Guy
 غزل
 حسین باندی شباب بنارسی

مے کشی کا لطف تنہائی میں کیا، کچھ بھی نہیں
یار پہلو میں نہ ہو جب تک، مزا کچھ بھی نہیں

تم رہو پہلو میں میرے، میں تمہیں دیکھا کروں
حسرتِ دل اے صنم، اِس کے سوا کچھ بھی نہیں

حضرتِ دل کی بدولت میری رسوائی ہوئی
اس کا شکوہ آپ سے اے دلربا کچھ بھی نہیں

قسمتِ بد دیکھئے، پُوچھا جو اُس نے حالِ دل
باندھ کے ہاتھوں کومیں نے کہہ دیا، کچھ بھی نہیں 

آپ ہی تو چھیڑ کرپُوچھا ہمارا حالِ دل
بولے پھرمنھ پھیرکے، ہم نے سُنا کچھ بھی نہیں

کوچہؑ الفت میں انساں دیکھ کے رکھے قدم
ابتدا اچھی ہے اِس کی، انتہا کچھ بھی نہیں

حسین باندی شباب بنارسی

Random Guy
غزلِ
ناصر کاظمی 

ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائی
 شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
 اُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی

پُکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب
 بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی

ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو
 مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی

رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لئے
 یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

یہ سانحہ بھی محبّت میں بارہا گزرا
 کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

دلِ فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اُٹھا
 یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی

میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
 تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

جہاں بھی تھا کوئی فتنہ تڑپ کے جاگ اُٹھا
 تمام ہوش تھی مستی میں تیری انگڑائی

کھُلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
 وہ لوگ تھے، نہ وہ جلسے، نہ شہرِ رعنائی

وہ تابِ درد وہ سودائے انتظار کہاں
 اُنہی کے ساتھ گئی طاقتِ شکیبائی

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
 بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی