عبد اللہ ناظر


’تارِ انفاسِ غزل‘ مجموعے کا حصہ



فہرست









عروجِ  ذاتِ  رسولِ  خدا کی بات کرو
وفا  شَناس  اگر  ہو  ،  وفا کی بات کرو

مقامِ اَوجِ نبیّ الہدی کی بات کرو
رضائے  شافعِ  روزِ جزا کی بات کرو

خدا کا  حکم  ہے  صلّوا  علیہِ و  آلِہ
نماز  پڑھتے  رہو رہنما کی بات کرو

شکیب و صبر کی سیرت میں غرق ہو جاؤ
جہاں کو چھوڑو دلِ بے ریا کی بات کرو

خیالِ  صورتِ  مکّی  مدَنی میں رہ کر
جمالِ  کعبۂ  ارض  و سما کی بات کرو

اِمامِ  کون  و  مکاں  لا اِلہَ اِلللہ
کبھی  نہ  بندگیِ نارسا کی بات کرو

نظر جو آئے تو جی چاہے چوم لیں ناظرؔ
قدم  قدم پہ اُسی نقشِ پا کی بات کرو
٭٭٭






بزم یاران سخن ہوتی رہے گی روشن
عشق اردو نیں بہل جاتا ہے پروانوں کا من
کون لائے گا مگر بھول کے بھی مشک ختن
کون باقی  رہا  مستانۂ  صہبائے کہن
ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں رخصت پیارے
دشت بیداد سے ٹھکرائے ہوئے بے چارے
کوئی جاتا ہے تو پھر لوٹ کے آتا ہی نہیں
اور جو آئے اسے کاٹنے لگتی ہے زمیں
تم سے شکوہ نہیں دنیا سے شکایت ہے مجھے
اپنی رسوائی بھی اک طرز محبت ہے مجھے
کون کہتا ہے بھلا خواہش دولت ہے مجھے
کچھ ہے پیاری تو فقط اپنی شرافت ہے مجھے
کس طرح تم سے کہوں کتنی محبت ہے مجھے
کس طرح تم سے کہوں کتنی محبت ہے مجھے
٭٭٭






دستِ نازک میں لئے ایک تر و تازہ کنول
اپنے چہرہ پہ تبسم کا بکھیرے  غازہ
خیر مقدم کے لیئے  آئی تھی  یوں محفل میں
جیسے اس کو مرے ہر زخم کا ہو  اندازہ

میں تھکے ہارے مسافر کی طرح گم صم تھا
ایک گمنام سے  شاعر کی طرح گم صم تھا
سن کے  اظہار محبت مجھے  محسوس  ہوا
کون کہتا ہے کہ دنیا میں نہیں نامِ وفا
دل شکستہ ہوں  تو  شاید مری کمزوری تھی
ورنہ مفقود نہیں عشوہ  و  انداز  و  ادا

بس یہی سوچ کے میں بھول گیا غم سارے
زندگی ہے  تو محبّت بھی ہے باقی پیارے

بحر ہستی میں  اٹھا  آج وہ طوفاں توبہ
شومی بخت ہے پھر عشق کا عنواں توبہ
پھر کسی سے بھی  نہ ہو گی مجھے امّیدِ وفا
ریزہ ریزہ ہے  مرا  شیشۂ ارماں توبہ

ٹھوکریں  کھا کے  بھی  آیا نہ سنبھلنا  مجھ  کو
جانے کب تک ہے اسی آگ میں جلنا مجھ  کو
٭٭٭




چلو  اچھا ہی ہوا بھول گئے تم مجھ کو
ورنہ  الزام تمہارے میں کہاں تک سہتا
اپنی خود داری الفت کا جنازہ لے کر
بے وفا  تم  کو  نہ  کہتا  تو بھلا کیا کہتا
درمیاں  فاصلے کچھ کم نہیں ہونے پائے
زخم بڑھتے  گئے کچھ کم نہیں ہونے پائے
خون کرنا ہی تھا  گر  عہدِ وفا کا تم کو
ڈھونگ الفت کا رچانے کی ضرورت کیا تھی
اپنے احساسِ گرانبار کی تسکیں کے لیئے
مجھ کو دیوانہ  بنانے کی ضرورت کیا تھی
دشتِ غربت میں کسی دن مجھے آرام نہ تھا
جز  دل آزاری کے تم کو بھی کوئی کام نہ تھا
جو بھی ہونا تھا ہوا ، بھول ہی جاؤ سب کچھ
داستانِ گل  و  بلبل  نہ  سناؤ مجھ کو
تم سے کہتی ہے یہ  بیداری  چشمِ  پرنم
پھر خدارا  نہ  کوئی  خواب  دکھاؤ مجھ کو
خوب واقف ہوں جہاں میں غم و آلام سے میں
مر نہ  جاؤں گا محبت کے اس انجام سے میں
٭٭٭



ڈوب گئے کتنے ہی  سورج راتوں میں

سوجھ بوجھ  سے  دیواریں  مضبوط بنا
گر جاتے ہیں کچے گھر برساتوں میں

زلفوں کے پھندوں سے تم غافل نہ رہو
دشمنِ جاں بیٹھے رہتے ہیں کھاتوں میں

دین جدا ہوں یا مذہب ہوں الک الگ
سب انساں ہیں بھائی بھائی ناتوں میں

صرف اپنی  پہچان  کہاں مقصود  رہی
سارے قبیلے بٹنے لگے ہیں ذاتوں میں

صحنِ چمن  میں  موسمِ گل  بدنام ہوا
مایوسی ہے  پھولوں میں اور پاتوں میں

دل دینا  الفت  میں  ناظرؔ  کھیل ہوا
جانیں دینی پڑتی  ہیں  سوغاتوں میں
٭٭٭


لے چلی ہے موجِ طوفاں جانبِ ساحل مجھے

آسرا  دے اے شعورِ سعیِ لاحاصل مجھے
وجہِ سرگرمی ہے  وہمِ  دوری منزل مجھے

جلوۂ جاناں سے کب دیکھا گیا غافل مجھے
سایۂ ابرِ رواں تھا پردۂ محمل مجھے

کیا  ستم ڈھایا  ترا گرنا مری آغوش میں
تجھ کو قاتل کہنے والے کہہ پڑے  قاتل مجھے

شمعِ بزمِ بیخودی اک آس تھی سو بجھ گئی
ظلمتِ تنہائی میں اب چھوڑ دے اے دل مجھے

اپنے گیسوئے پریشاں کی طرح  برہم نہ ہو
صدمۂ یک جنبشِ لب  ہو گیا مشکل مجھے

یوں تو حیراں ہے زمانہ رقصِ بسمل دیکھ کر
"بڑھ کے سینے سے نہ لپٹا لے مرا قاتل مجھے "

روز صبح و شام  خنداں ہیں مزاجِ حال پر
دور  کرتا  جا رہا  ہے  میرا  مستقبل مجھے

شوقِ اظہارِ  تمنا پھر  اجاگر  ہو گیا
پھر  کوئی  آواز  دیتا  ہے  سرِ محفل مجھے

جوئے خوں نے رکھ لیا ناظرؔ کی آنکھوں کا بھرم
جانِ جاں تم نے تو سمجھا پیار کے قابل مجھے
٭٭٭





خرد  کہتے  ہیں  کس کو ہے جنوں کیا
زمانہ کہہ  رہا  ہے میں کہوں کیا

کوئی سنتا  نہیں  میری  کہانی
لبوں پر  آ گیا سوزِ  دروں کیا

دھڑکنا  ہے  جہاں دل  کا  مقدّر
قرارِ  زندگی  کیا  ہے سکوں کیا

گماں  ہونے  لگا  قوسِ  قزح  پر
جوانی  ہو گئی  ہے  سرنگوں کیا

زباں  کھلوا  نہ میری اے ستمگر
نظر  آتا  نہیں حالِ  زبوں کیا

پگھلتا ہے  کہیں  پتّھر  کا دل بھی
کسی  ظالم  کو میں  آواز دوں کیا

ہنسی  جائز نہ رونا بر محل ہے
بڑی مشکل میں ہوں  ناظرؔ کروں کیا
٭٭٭





بہر طواف  شمع حقیقت  کے  ارد گرد
رہتے ہیں  ہم تو  اہل محبت  کے  ارد گرد

پوچھو پتہ نہ مجھ سے  غریب الدیار  کا
مل جائے گا کہیں وہ شرافت  کے  اردگرد

لے لی ہے دشت یاس نے امید کی جگہ
اک وادی خیال تھی  پربت  کے  اردگرد

ّ قہر  زمانہ  بھی ہے  غم  ہجر یار  بھی
محشر بھی جاگتا ہے  قیامت  کے  اردگرد

ناظرؔ  مجھے سکون  قناعت میں  مل گیا
دنیا کہ  بھاگتی رہی  دولت  کے  اردگرد
٭٭٭




دل  پہ جو کچھ بھی گزرتی ہے کہوں یا نہ کہوں
مان لوں  اپنا تجھے  یا  کوئی  بیگانہ کہوں

جب سے  آشفتہ سری نے  مجھے آوارہ کیا
ہے  مناسب کہ  تر ے شہر کو  ویرانہ کہوں

بحر حسرت میں جو  یادوں کے سفینے ڈوبے
ہائے کس منہ  سے  بھلا  پیار کا افسانہ کہوں

دشتِ غربت  میں کہاں  آبلہ پائی سے مفر
ورنہ  میں  تو کسی صحرا کو  بھی  صحرا نہ کہوں

ہوش ہوتا  تو  خبر  ہوتی  مجھے  عالم  کی
کس کو  فرزانہ  کہوں  اور کسے دیوانہ کہوں

تُو  نے یوں دیکھا مجھے جیسے کہ دیکھا ہی نہیں
اور  میں ہوں  کہ تری چال کو مستانہ کہوں

زندگی  کیا ہے عذابِ دل  و  جاں ہے ناظرؔ
لوگ  کہتے ہیں  کہ  دنیا کو بھی دنیا نہ کہوں
٭٭٭




خوابِ غفلت میں ہے محبوب جگاؤں کیسے
وعدۂ وصل اسے  یاد  دلاؤں کیسے

دشت گردی میں نہیں  آبلہ  پائی سے مفر
اپنی منزل کی طرف  پاؤں  اٹھاؤں کیسے

میرا ساقی ہے خم  و  ساغر و مینا بھی مرے
اس خرابات کو  میں چھوڑ کے جاؤں کیسے

تم نے جو کچھ بھی سنا اس کے سوا کچھ بھی نہیں
راز کی بات  ہے  محفل میں بتاؤں کیسے

درمیاں دونوں  کے  دیوار بنی ہے دنیا
تم سے ملنے کے لیئے  آؤں تو آؤں کیسے

آئینہ مجھ  کو  دکھاتی ہے  نگارش میری
آبروئے  نگہِ شوق بچاؤں کیسے

گردشِ وقت سے  ملتی نہیں فرصت ناظرؔ
داستانِ دلِ بے تاب سناؤں کیسے
٭٭٭


سمجھو نہ میں تمہاری  طرح آرمیدہ ہوں
مانند صید غمزدہ آفت  رسیدہ ہوں

یا مر چکا  ہوں پی کے سم  ابتلائے  دل
یا  چشم  یاد  یار کا اشک  چکیدہ ہوں

لذت  کش  سرور  تمنا ہوں  آج  تک
پیہم امید وصل میں  ہجراں  چشیدہ ہوں

آئے بھی گر بہار تو میرا  شمار  کیا
گلشن  میں  مثل شاخ  گل نودمیدہ ہوں

بزم  جنوں  میں  نام  مرا  لے کے  دیکھ لے
شاید میں سوز  زمزمہ ناشنیدہ ہوں

رکتا  نہیں  قلم  نہ سیاہی کی  ہے  کمی
کہنے  کو تیرے سامنے دست بریدہ ہوں

پہنچا نہ بعد  جہد  بھی اپنے مقام پر
گویا  جہاں بھی جاؤں میں اک زر خریدہ ہوں

ہر روز  زخم  تازہ  سے  مجھ  کو نہیں مفر
صحرا  میں کب سے  مثل غزال رمیدہ ہوں

ناظر ؔ  مرا وجود  ہے قسمت کے ہاتھ میں
اک  فرد  ضمن  خلق  خدا  آفریدہ ہوں
٭٭٭




طے کر چکے  ہیں  جادۂ  شوقِ وصال میں
وہ  مرحلے کہ جو نہ تھے خواب و خیال میں

فرطِ  جنونِ  مجمعِ اہلِ  وفا  نہ پوچھ
ہر  شخص  گم  ہے لذّت  دیدِ جمال میں

تُو لے چلا ہے اے دلِ حسرت زدہ کہاں
اپنا جواب  ڈھونڈ  رہا  ہوں  سوال میں

کیا  لطفِ گفتگوئے طرب خیز جانِ جاں
کٹ جائے رات یوں ہی اگر قیل و قال میں

کیوں مانگتے ہو مجھ سے تبسم کی اک جھلک
کیا رہ  گیا طبیعت آشفتہ حال میں

آئینہ  عکسِ صورتِ  پنہاں نہ دے سکا
"لانا  پڑا  تمہیں  کو  تمہاری مثال میں "

کتنا گناہ گار  تھا  اب سوچتا ہوں میں
جلتا رہا  جو دوزخِ  رنج و ملال میں

ممکن  ہے کس طرح سے  وہاں فصل کاٹنا
سوکھی رہے زمین  جہاں  برشگال میں

جیتا  ہوں  جانے کس لیئے جھوٹی امید پر
کب جامِ جم سے آئی ہے جامِ سفال میں

سوزِ  غم فراق  کا  بھی  غم  نہیں  رہا
یوں مبتلا ہوئی ہے مری جاں  وبال میں

سرمایہ  حیات  نہ کیوں سونپ دوں  تجھے
نکلے  رہِ وثوق  اگر احتمال میں

نا آشنائے نغمگی  کہتے ہیں مجھ سے اب
یہ بھی کوئی غزل ہے  نہ سر میں نہ تال میں

شکرِ خدا اگر  نہ  کریں  اور  کیا کریں
جینا  مجال  میں ہے  نہ  مرنا  مجال میں

پہرا لگا  ہوا  ہے ہر اک  بابِ لطف پر
حاضر ہوا  تھا بار گہہِ  خوش خصال میں


یہ  بھی ہے  ایک معجزہ  میرے  وجود کا
فکرِ  کمال  باقی ہے  دورِ  زوال میں

ناظرؔ  کو  اپنے  شعر و ادب  پر غرور تھا
سو  بار  لڑکھڑائی  زباں  بول چال میں
٭٭٭



تلخ ہیں کتنے ترے  جور  و  ستم کہتے نہیں
کیا گزرتی ہے ہمارے دل پہ ہم کہتے نہیں

تجھ کو اپنا  جان کر  ہر وقت کرتے ہیں گلہ
آسماں کو  تو زمیں  بوس  قدم کہتے نہیں

بے  خیالی  میں  اگر  وعدہ  خلافی ہو گئی
بے وفا  تجھ کو  ترے  سر کی قسم کہتے نہیں

شیوۂ اہل کرم جیسا  بھی ہو  منظور ہے
ہم غریبوں سے نہ پوچھو بیش و کم کہتے نہیں

لوگ اپنانے  لگے خود ساختہ بے رہروی
ہر  جفا  کو  فتنۂ  دیر  و  حرم کہتے نہیں

دیکھتے ہیں  ، ہو رہا ہے جو نظر کے سامنے
قصۂ  ویرانی  باغ  ارم کہتے نہیں

کاکل پیچاں میں ناظرؔ ہیں مگن کچھ اس قدر
دل شکن ہیں زندگی کے پیچ و خم کہتے نہیں
٭٭٭


ہاتھ پھیلائے  سرِ راہگزر جانے دو
چاہنے والے  کو  اس طرح تو مر جانے دو

سونے دیتی  ہے  کہاں چشم شرر بار مجھے
اپنے گیسو مرے  چہرے  پہ بکھر جانے دو

کس کو  ہے حسرتِ  آسائشِ جاں دنیا میں
جس طرح  ے بھی گزرتی ہے گزر جانے دو

قیدِ  زنداں  سے  تو بہتر ہے رہائی میری
زندہ  رہنے  نہیں  دیتے ہو تو مر جانے دو

توڑ دو  سلسلۂ وہم و  گماں کی کڑیاں
ورنہ اقدار کا  شیرازہ  بکھر جانے دو

سطوتِ جبر کو ٹوکے ،  ہے یہ کس میں جراءت
جو بھی  الزام  ہے  تقدیر کے سر جانے دو

چھین  لو  مجھ  سے رواداری  اِحساسِ وفا
یا  درِ یار پہ با  دیدۂ  تر جانے دو

ان  کا آنا  بھی  ہے  اندازِ  تغافل جیسا
دو گھڑی بیٹھے نہیں ، کہتے ہیں گھر جانے دو

چاند  ہو تم  تو  مرا  ساتھ کہاں تک دو گے
مجھ کو مانگے  کی  بلندی سے اتر جانے دو

اپنے قابو میں  نہیں  دل کا  سفینہ  ناظرؔ
جس طرف رخ ہے ہواؤں کا ادھر جانے دو
٭٭٭




بزم جاناں  میں  اگر  اظہار  حال دل نہ ہو
زندگی  ہو جائے آساں موت بھی مشکل نہ ہو

کشتی عمر  رواں  کے  ڈوبنے  کا  خوف کیا
آرزو ہے بحر  الفت  کا  کوئی  ساحل نہ ہو

کون  امیدوں  کو پالے راہ وصل یار میں
قافلہ چلتا رہے کب  تک  اگر  منزل نہ ہو

رقص پروانہ  تو ظلمت میں بھی رک سکتا نہیں
شمع ہی  کیا جو  کبھی روشن  سر  محفل نہ ہو

جلوہ گر ہو  یا  نہ  ہو  یہ منحصر ہے حسن  پر
اے نگاہ شوق  تیرا  کام  ہے  غافل نہ ہو

گفتگوئے  دو  بدو  سے کب مجھے انکار ہے
شرط یہ ہے  درمیاں پردہ  کوئی حائل نہ ہو

جذبۂ  اخلاص تو  ہے  بر سبیل  تذکرہ
چاہے میری شاعری ناظرؔ  کسی قابل نہ ہو
٭٭٭




محفل  یار ہو یا  گوشۂ تنہائی  ہو
آدمی  وہ ہے  جسے شوق جبیں سائی ہو

جادۂ  عشق میں ہوتی ہے  تو  پسپائی  ہو
میرا کیا ہے مری شہرت ہو کہ رسوائی ہو

دل ہے اس کا  جو کسی غم سے نہ گھبرا جائے
جان اس کی ہے جسے  پاس شکیبائی ہو

مجھ سے ہر دوست کی یہ شرط ہے دوران سخن
میری باتوں میں سمندر کی سی گہرائی ہو

میں ہوں  امواج  تلاطم  کے مقابل تنہا
اور  تم ہو  کہ  فقط  ایک تماشائی ہو

تجربہ  تلخ  ہے  اخلاص  و  محبت کا مجھے
میں یہ چاہوں گا کوئی مجھ سا نہ سودائی ہو

تیرے جلوہ کے سوا کچھ نہیں  مقصود  نظر
چشم  ناظرؔ  کو  اگر  رخصت بینائی ہو
٭٭٭


میری  ہر  بات  کو باتوں میں اڑا دیتے ہو
کن  گناہوں  کی  خدا جانے سزا دیتے ہو

زندگی  اور بھی  ہو جاتی  ہے مشکل میری
بد دعا دیتے  ہو یا مجھ  کو  دعا دیتے ہو

چشم مخمور  فسوں ساز  ہے  اتنی کہ مجھے
ہوش  میں آتے  ہی  دیوانہ بنا دیتے ہو

دعوت  شوق  ہے یا کار زیاں ہے کیا ہے
مسکرانے  نہیں  پاتا  ہوں رلا دیتے ہو

عشرت  جلوہ کی توفیق  اگر ہوتی ہے
ناگ کے طرح کی زلفوں سے ڈرا دیتے ہو

ٹوٹ  جائے  نہ کہیں  مہر  و  وفا کا بندھن
کس  لیئے  پیار کی بنیاد ہلا دیتے ہو

پہلے کہتے  تھے کہ ناظرؔ  سے ہے رنگ محفل
کیا ہوا اب جو خود اپنوں کو  بھلا دیتے ہو
٭٭٭


بھلا کر رہا ہوں برا کہہ رہے ہو
ستم کر رہے  ہو یہ کیا کہہ رہے ہو

شکایت  زمانے کی مقصود کب ہے
کڑا وقت  ہے تم کڑا کہہ رہے ہو

تصنّع  سے بہتر ہے سچّائی کڑوی
تکلف میں کیوں مرحبا کہہ رہے ہو

مسیحائی ہے  یا کہ بے چارگی ہے
کوئی درد ہو بے دوا کہہ رہے ہو

چھپا کر مری آرزوؤں کی ثروت
اسے رازِ  بند قبا کہہ رہے ہو

نہیں گر  مری دوستی  کا بھروسا
مجھے کس لیئے ہمنوا کہہ رہے ہو

عجب کسمپرسی  کا عالم  ہے  یارو
کہ تم ناخدا  کو  خدا کہہ رہے ہو

کبھی دشت کو کہہ رہے ہو گلستاں
کبھی  لُو کو  بادِ صبا کہہ رہے ہو

تمہارے قدم کا ہوں میں ایک سایہ
مجھے کس لیئے  نقشِ پا کہہ رہے ہو

یہ رشتہ  محبّت کا بھی کم نہیں ہے
کم از کم  سلام اور دعا کہہ رہے ہو

کسی  بات پر کب ہے مغرور ناظرؔ
اسے بے خبر  تم  بجا کہہ رہے ہو
٭٭٭



گلشنِ زیست  میں گل ریز شمائل ہو جا و
آئینہ  بن کے زمانہ  کے مقابل ہو جا و

زندگی  میری  ہے  پیچیدہ  بہت پہلے ہی
عقدۂ  زلف  کی مانند  نہ مشکل ہو جاؤ

مثلِ سیماب تمہیں  کیسے  تڑپتا دیکھوں
اس لیئے  میں نہیں کہتا کہ مرا دل ہو جا و

فیصلہ کر دو  تذبذب میں  نہ  رکّھو مجھ  کو
" تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ "

کوئی طوفانِ  بلا خیز  ڈبو دے  نہ  مجھے
بے سہارا ہوں خدا کے لیئے ساحل ہو جاؤ

رو کشِ  حسنِ جہاں تاب کو  حیراں نہ کرو
ہو سکے تو  شب ہجراں  مہِ کامل ہو جاؤ

چین کب مجھ کو ہے خوں گشتہ تمنّاؤں سے
مجھ کو  سینہ  سے  لگا لو مری منزل ہو جاؤ

چاہے ٹھکرا دو مجھے ٹوٹے کھلونے کی طرح
میری  بے لوث محبّت کے تو قائل ہو جاؤ

جلوہ افروز  نہ ہو چاند  تو کیا لطفِ غزل
آج  اک رات سہی  خارجِ محمل ہو جاؤ

شمع ساں جلنا  تو اک  رسمِ وفاداری ہے
وجہِ بیدار ی  رنگینی محفل ہو جاؤ

گو  نہیں  بادیہ  پیمائی سے فرصت ناظرؔ
کون کہتا ہے  درِ  یار  سے غافل ہو جاؤ
٭٭٭



خدایا  خیر  ہو بے  آسرا  خانہ  بدوشوں کی
چمکتی  بجلیوں  کی  روشنی اچھی نہیں لگتی

مرا ہونا نہ ہونا ایک ہے گیتوں  کی محفل میں
مگر  اے جانِ جاں  تیری کمی اچھی نہیں لگتی

زمانہ اس کی سنتا ہے جو اپنی ہی چلاتا ہے
دلِ محزوں کی غمگیں بانسری اچھی نہیں لگتی
٭٭٭


کوئی افواہ سنا  جھوٹی خبر دے مجھ کو
یاس کی رات میں امیدِ سحر دے مجھ کو

کیوں ملا دیتا ہے مٹی میں محبت کے گہر
چند آنسو کبھی اے دیدۂ تر دے مجھ کو

آئینہ سامنے رکھا ہے اندھیرے جیسا
خود کو پہچان سکوں ایسی نظر دے مجھ کو

مجھ سے دو چار قدم دور نہیں ہے منزل
ایک  آواز  سرِ  راہگزر دے مجھ کو

وعدۂ یار ہے  تمہیدِ ملاقات  مگر
شوقِ وافر کہیں بے صبر نہ کر دے مجھ کو

بوجھ اتنا ہے اٹھایا نہیں جاتا دل سے
دینے والے نہ کبھی دولت و زر دے مجھ کو

دیکھ میں بیٹھ گیا  راہِ وفا  میں  ناظرؔ
اور مجبور نہ کر زادِ سفر دے مجھ کو
٭٭٭



دل میں شکوہ  ہے  تو  آنکھوں  میں جلی خاموشی
تیرے در پر  ہے یہ میری  ادبی خاموشی

ان کے ہونٹوں پہ تھی چپ میری زباں تھی ساکت
رات سے پہلے عجب طور  کی تھی خاموشی

اس  جگہ  کیسے  کہوں  حال  غم  دل  اپنا
بات کرنے سے جہاں پر ہو بھلی خاموشی

ٹوٹنے  لگتے  ہیں  جس وقت  ستم  کے  بازو
بول  اٹھتی  ہے غریبوں کی دبی خاموشی

بحر  ہستی  میں  تموج  کے عجب  موسم  ہیں
کبھی  طوفان  بلا  ہے  تو کبھی خاموشی

جم  گئی  ہے  در  و  دیوار پہ  کاہی کی طرح
پیار کے شہر میں آہوں سے بھری خاموشی

محفل  شعر  و  سخن  میں  ہے  تحیر  ناظرؔ
جیسے  ذہنوں  پہ مسلط  ہو کڑی خاموشی
٭٭٭

وعدۂ  وصل بجا ،  دیکھیئے تاخیر نہ ہو
خواب وہ  کیا  ہے  جو شرمندۂ  تعبیر نہ ہو

کتنا  نادان  ہوں کیسی ہے  یہ حسرت میری
پا بجولاں  رہوں  اور پاؤں میں زنجیر نہ ہو

بعد مدت  جو  نظر  آیا  ہے شہر  الفت
سوچتا  ہوں کسی  ویرانے  کی  تصویر نہ ہو

میں جسے چاہوں وہ کرتا ہے تغافل مجھ سے
میری قسمت کی طرح  تیری بھی تقدیر نہ ہو

کیا دعا  کیسی دوا  تیرے مریض دل  کی
اے  مسیحا  جو ترے ہاتھ میں  تاثیر نہ ہو

میں  وہ شاعر ہوں کہ دنیا نہ سمجھ پائے مجھے
تو وہ الجھن ہے کہ جس کی کوئی تفسیر نہ ہو

سانس  لینا بھی  ہوا  جاتا  ہے مشکل ناظرؔ
عقدۂ  زیست  بھی اک زلف گرہ گیر نہ ہو
٭٭٭



سر بسسجدہ  ہوں ،  بندگی باقی
عاجزی  سی ہے  عاجزی باقی

شامِ ہجراں ہے بیدلی باقی
چاند  ہے  اور  نہ چاندنی باقی

گر  نہیں ہے کشیَدگی باقی
کیوں ہے بے وجہ بے رخی باقی

یادِ  جاناں  میں  کھو گیا  ہوں  میں
ہائے کیسی  ہے  بے خودی باقی

دوست احباب  کی نشانی ہے
دولتِ دل رہی سہی باقی

کیا  قیامت ہے تم یہ کہتے  ہو
رہ سکے  گی  نہ  دوستی باقی

مجھ  سے ہے جذبۂ وفا قائم
تم  سے  محفل  میں روشنی باقی

کتنے طوفاں گزر گئے  سر  سے
کٹ ہی  جائے گی زندگی باقی

میکدہ  کیا ہے اک خرابہ  ہے
جوشِ  بادہ  نہ میکشی باقی

دستِ  قاتل  میں  ہے مری  قسمت
میں ہوں اور میری  جانکنی باقی

ٹوٹتا  کیوں  نہیں ہے تارِ نفس
کیا  کوئی  آس  رہ  گئی باقی

دل  نہیں میرا  کینہ ور ناظرؔ
سب  سے  ہے  بے تکلّفی باقی
٭٭٭


مجھ کو  عزیز  جان  محبت  ہی کیوں نہ  ہو
دل  کا جو مشورہ  ہے حقیقت  ہی کیوں نہ ہو

ہوتا  ہے  بے محل  کبھی  اچھا سلوک بھی
ہر  شئے کی ایک حد ہے شرافت ہی کیوں نہ ہو

اک  چشم التفات  ادھر  بھول کر  سہی
اے میرے دوست  بہر اذیت ہی کیوں نہ ہو

آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں وارفتگان شوق
اس  کا  خرام ناز  قیامت ہی کیوں نہ ہو

جی جانتا ہے  کس لیئے میں ہوں گریز پا
رسوائیوں  کی آگ  میں شہرت ہی کیوں نہ ہو

بے اجتہاد  کیسے  کریں گے  قبول ہم
دنیا  کے اعتبار سے  جنت ہی کیوں نہ ہو

بعد از  فراق شب رہا  ناظرؔ سے کیا  صلہ
فصل  بہار  تیری  بدولت ہی کیوں نہ ہو
٭٭٭



عالم  سر گشتگی  میں  یاد جاناں  بڑھ گئی
میرے دل میں یوں  تمنائے بہاراں بڑھ گئی

ہٹ گیا  طوفان  دیوانوں  کا  رستہ  چھوڑ کر
ڈوبنے  والوں کی جانب موج طوفاں بڑھ گئی

رفتہ رفتہ  ڈھل گئے  آنسو  لہو کے  رنگ میں
آہ و زاری جانے کیوں اے چشم گریاں بڑھ گئی

اب نہیں پہلی سی وہ الفت  دلوں کے  درمیاں
دوستی  کم  ہے  تو رسم  عہد و پیماں بڑھ گئی

بے گناہی  نے  اندھیروں  میں اجالا کر دیا
جستجوئے کشتۂ سر در  گریباں بڑھ گئی

عقدہ ہائے  رنج  و  غم  کو کاٹنا  مشکل ہوا
راہ  ہستی  کی یہاں تک  زلف پیچاں بڑھ گئی

غفلت صیاد  ناظرؔ کچھ  نہ تھی  جز  اک سراب
بال و پر  کیا  بڑھ گئے  دیوار  زنداں بڑھ گئی
٭٭٭



ہم اگر  زمانے کے پیچ و خم سے ڈر جاتے
آہ رائگاں جاتی نالے  بے اثر جاتے
جادہ، رہِ  الفت چھوڑ کر  اگر جاتے
رہروانِ  گم گشتہ کیا پتہ  کدھر جاتے
چارہ سازی وحشت اور دشتِ غربت میں
جز تمہارے درکے ہم کیوں کسی کے در جاتے
بے نیازی دل  ہے زندگی کا  سرمایہ
ورنہ  راہِ الفت میں ہم کبھی کے مر جاتے
پرسشِ جراحت کا کس طرح خیال آتا
ہم تمہاری محفل سے  گر  نہ کوچ کر جاتے
کاش رنگِ وصلِ شب برقرار رہ جاتا
کاش گیسوئے  جاناں صبح دم سنور جاتے
کیا ہمارے کام آتی  کشمکش اسیری میں
کس کی سرزنش ہوتی کس کے بال و پر جاتے

زیست کی تگ و دو سے گر نجات مل جاتی
یادِ  یار  میں  ناظرؔ اپنے دن گزر جاتے
٭٭٭


کبھی  کبھی  ہی  سہی  تم اگر  ملا کرتے
زباں  ہلاتے نہ ہم عرضِ مدعا کرتے

سِرشتِ خاک میں اپنی نہیں ہے بدعہدی
وفا  شناس نہ ہوتے تو کیوں وفا کرتے

فروغِ حسن کے ہوتے نہ ہم جو پروانے
چراغِ بزم پہ کیوں جان و دل فدا کرتے

جھلس نہ جاتے اگر  مہر کی تمازت سے
جنونِ  شوق میں  صحرا نورد کیا کرتے

سکونِ دل کے لیئے بندگی  ضروری ہے
وگرنہ ہاتھ  اُٹھاتے  نہ  ہم دعا کرتے

پیامِ  خلقِ  خدا تھا نشاطِ  آزادی
وہ کس کو  قید میں رکھتے  کسے رہا کرتے

کسی کو وعدہ  و  پیماں کا  پاس ہو کہ نہ ہو
ہماری عمر  گزر  جائے  گی وفا کرتے

کبھی دکھاتے  ہمیں  جلوہ،  جمال آرا
کبھی  کواڑ  دریچے  کا  اپنے  وا کرتے

تمہارے دم سے تھی رعنائی ادائے سخن
ہم اور  تم سے  بھلا  بے سبب گلا کرتے

دِماغ وسعتِ  کون و مکاں نہیں رکھتا
جہاں  تمہاری جگہ  تھی وہیں رَہا کرتے

عذابِ  قتل گہِ  آرزو  خدا کی پناہ
نہ کرتے  آہ  و  فغاں ہم تو اور کیا کرتے

کسی  کی یاد میں جاں سے گزر گئے ناظرؔ
قفس  میں  حسرتِ پرواز تاکجا کرتے
٭٭٭



نکہتِ  گل ہے نہ  دلداریِ جاناں کوئی
یاد  پھر آئے گا  کیوں  مجھ کو  گلستاں کوئی

وحشتِ دل کا  تقاضا ہے یہ دیوانوں سے
"آج  ثابت  نظر آئے  نہ  گریباں کوئی "

خوفِ انجام  نہ  اندیشۂ  رسوائی  ہے
جب سے ہے  واقفِ اسرارِ دل وجاں کوئی

تم جو  کہتے ہو سنواروں تو سنواروں کیسے
زندگی  ہے  مری یا زلفِ پریشاں کوئی

میں گریزاں  نہیں اظہارِ حقیقت سے مگر
ڈررہا  ہوں  کہ  نہ  ہو جائے پشیماں کوئی

تودۂ  خاک ہے اب ، میرا جہاں پر گھر تھا
یہ بھی کیا کھیل  ہے  اے گردشِ دوراں کوئی

جس کو آنا ہے  وہ  آ جائے  مسیحائی  کو
خلوتِ  قصر  ہے  کیا میرا شبستاں کوئی

چشمِ  قاتل  نے کہاں کسر اٹھا رکھی ہے
خون  ہونے سے بچا  کب مرا ارماں کوئی

جینے دیتی  نہیں  دنیا  جو کسی حالت میں
چاہیئے  ہم  کو  گلستاں نہ  بیاباں کوئی

شِعر میں ہے تپشِ معدنِ الفاظ سے لَے
ورنہ  کیا حسنِ غزل  اور  غزالخواں کوئی

یہ  محبّت  ہے کہ  تعزیرِ  محبّت جاناں
جی  جلا کر تو جتاتا  نہیں  احساں کوئی

ماو  و  انجم  نہیں کیا باعثِ عبرت  یارو
ڈوبتا ہے  کوئی  ہوتا  ہے  نمایاں کوئی

سوزشِ  گرمیِ صحرا  کی  خبر ہے کس کو
کون سمجھے  گا  مرے درد  کا  درماں کوئی


عسرتِ زیست ہے توہینِ وفا سے بڑھ کر
کہنے سننے  کا  بھی باقی  نہیں امکاں کوئی

زندگی گزری ہے امواجِ  بلا  میں ناظرؔ
کیا بگاڑے  گا  مری  ناؤ  کا طوفاں کوئی
٭٭٭




اظہار تمنائے دل و جاں نہیں کرتے
ہم اپنی حقیقت  کو نمایاں نہیں کرتے

بے  پردگی جلوۂ  جاناں نہیں کرتے
جو مر کے  بھی رسوائی  پیماں نہیں کرتے

جاں  تیری امانت  ہے سو لوٹاتے ہیں تجھ کو
دل تیرا  مکاں ہے اسے ویراں نہیں کرتے

زندہ  ہیں  کہ مرنے  کی ہے  تاریخ مقرر
مرتے ہیں  تو  دنیا  کو  پریشاں نہیں کرتے

دیوانگی اہل  جنوں  خیر  ہو  تیری
اب  دست  خرد  چاک گریباں نہیں کرتے

رولیتے ہیں چھپ چھپ کے غریب الوطنی پر
بدنام تجھے  دیدۂ گریاں نہیں کرتے

تعریف  کا  یہ  بوجھ  اٹھایا  نہیں  جاتا
ہم  فرض ادا کرتے ہیں  احساں نہیں کرتے

سمجھائے گا  یہ  کون اسیران قفس کو
صیاد  کبھی وا در  زنداں نہیں کرتے

مشاطگی زلف میں مصروف  ہو  کب سے
مشکل کو مری کس  لیئے  آساں نہیں کرتے

دنیا کے زر  و  مال سے اک سانس ہے بہتر
ناظرؔ  گلۂ  تنگی  داماں نہیں کرتے
٭٭٭


مداوائے  غم دل جانے کب ہو
نگاہ  یار مائل جانے کب ہو

رگڑ  کر ایڑیاں مرنے  لگا  ہوں
پشیماں  میرا  قاتل جانے کب ہو

سرابوں  کا  کروں  پیچھا  کہاں تک
نشان  راہ منزل جانے کب ہو

زمانے  سے  پناہیں مانگتا  ہوں
مصیبت  کوئی نازل جانے کب ہو

کہاں  تک  اضطراب  موج ہستی
جہاں طوفاں ہے ساحل جانے کب ہو

اٹھا دو  اپنے  ہی  چہرے  سے پردہ
نیاز  اہل  محفل جانے کب ہو

اسے  دیکھوں تو دیکھوں اپنی صورت
وہ آئینہ  مقابل جانے کب ہو

مجھے  سیر گلستاں  کی  ہے  حسرت
مگر اس شوخ  کا  دل جانے کب ہو

غنیمت  ہے  وصال  یار  ناظرؔ
کوئی  دیوار  حائل جانے کب ہو
٭٭٭



خیالِ یار کو  وہم  و  گماں نہیں کہتے
باِیں  تکلفِ  لفظ  و  بیاں نہیں کہتے

وجودِ  عیشِ بہم  ہے قرارِ جاں ورنہ
یہ  چند تنکوں کو ہم  آشیاں نہیں کہتے

سمیٹ لیتے ہیں دنیا کے درد و غم سارے
کسی سے  حالِ دلِ ناتواں نہیں کہتے

چمن پہ جو بھی گزرتی ہے بھانپ لیتے ہی
تباہ کردۂ فصلِ  خزاں نہیں کہتے

حضور  میں نے کہاں آپ کی برائی کی
سکوتِ  لب کو تو آہ  و فغاں نہیں کہتے

خطاب کرتے ہیں منبر پہ زور و شور کے ساتھ
جہاں ضروری  ہے کہنا وہاں نہیں کہتے

مری جبیں کو  ہے اس کی تلاش اے ناظرؔ
وہ  سجدہ گاہ  جسے  آستاں نہیں کہتے
٭٭٭


شکستہ دل  ہوں  تری  انجمن سے جانے دے
فضائے  تلخی  رنج و  محن سے جانے دے

نہ دوست  دوست  کا ساتھی  نہ  بھائی بھائی کا
یہی وطن ہے تو  ایسے  وطن سے جانے دے

وفا  جواب نہیں نہج  بے وفائی  کا
زباں  کو  دائرۂ  حسن  ظن سے جانے دے

ہزار  دبدبۂ  بزم  یار ہو اس  میں
مجھے  ہمیشہ  مرے بانکپن  سے جانے دے

بڑھوں نہ میں کبھی حد  ادب  سے الفت میں
غرور حسن  کو  تو  اپنے من  سے جانے دے

رہے خیال  بہار  و  خزاں  کے  موسم  کا
چمن  کی  بات نہ ہرگز چمن  سے جانے دے

لزوم عقدۂ گیسوئے یار  کیوں ناظرؔ
اسیر شوق  کو دار  و  رسن  سے جانے دے
٭٭٭



سوزشِ  زخمِ جگر  باہر  ہوئی  مقدور سے
ساقیا  اب تو پلا دے  دیدۂ مخمور سے

تنگ آ کر  ہم تقاضائے  دلِ رنجور سے
محفلِ جاناں میں افسردہ سے ہیں مسحور سے

حالت سجدہ میں بھی سہتے رہے جور و ستم
یوں تعلّق تھا  ہمارا  اک  بتِ مغرور سے

اہلِ دل پر چل نہیں سکتی فسوں کاری تری
دور سے اے موجِ رنگِ عالمِ گِل دور سے

میں ہوں وہ مستغنی احسانِ اہل مال و زر
جس پہ آنچ آتی نہیں بہتان سے یا زور سے

فرشِ گُل پر پڑ رہے ہیں بہکے بہکے سے قدم
وہ نظر  آنے  لگے  مجھ کو بہت مسرور سے

ہو گئیں  ساری امیدیں نذرِ چشمِ کم نظر
کیا  ملا موسیؓ  کو ناظرؔ جلو ہ  گاہِ طور سے
٭٭٭


پیش  آ کر عشوہ  و  انداز سے
کر نہ  دو  گھایل  نگاہ ناز سے

ہر  خطا  پر سر جھکا لیتا  ہوں میں
عاقبت اندیش  ہوں  آغاز سے

مختصر  کیسے کہوں  روداد  غم
جب زباں  واقف نہیں ایجاز سے

پردہ  پوشی  اور وہ بھی بے سبب
راز چھپ  سکتا ہے کیا ہمراز سے

کس لیئے مجھ کو  رہائی  دی  گئی
منع  کرنا تھا اگر  پرواز سے

اب  کسی کروٹ سکوں ملتا نہیں
واسطہ  ہے اک  بت طناز سے

ربط  حسن  یار سے ناظرؔ  کاہے
جیسے  نغمہ  کا  تعلق  ساز سے
٭٭٭


کب ملا مجھ  کو  سکوں  دشت  غم و آلام سے
مسکراہٹ ہے  لبوں پر صرف تیرے نام سے

زندگی کی دھوپ میں خوابوں کے گل مرجھا گئے
اور  کیا  حاصل  ہوا  ہے  گردش ایام سے

اپنے گیسوئے پریشاں  سے  ذرا پوچھو کبھی
کس لیئے برہم ہیں میرے شوق کے پیغام سے

راہزن  ہیں رقص فرما رہبروں کے روپ میں
کیسی دنیا ہے جو واقف  ہی  نہیں انجام سے

ہر  طرف ہے ظلمت  جور  و  ستم چھائی ہوئی
روشنی  ہے  بے تعلق  میرے صبح و شام سے

حال دل کہتے ہوئے  آنکھوں میں آنسو آ گئے
اور یہ  کہنا  پڑا  ،  ہم  لوگ  ہیں آرام سے

خود پہ ہنس لیتا ہوں ناظرؔ  چند  لمحوں کے لیئے
جب چھلک جاتی  ہے  صہبائے تمنا جام سے
٭٭٭



دیتے  نہ اگر دل  کو غم جناب
ہوتی  نہ مری  چشم نم جناب

خوش رہ  نہ  سکیں گر  بہم جناب
روٹھا  نہ کرو  کم  سے کم جناب

غربت  میں  ذرا بھی نہیں سکون
کب تک سہے جائیں ستم جناب

دنیا نے دیئے ہیں بہت سے رنج
لیکن  ہے  خدا  کا کرم جناب

کب تک یہ فضا  میں  سمومِ درد
گھٹنے  لگا ہے  میرا  دم جناب

چھپتی  ہے کہاں  دل کی داستان
رکتا ہے کہیں  کیا  قلم جناب





دل بے نیاز  اتنا ہے فصلِ بہار سے
" کاٹوں میں سرو کو جو بڑھے قدِّ  یار سے "

پرنم  ہے آنکھ طولِ شبِ  انتظار سے
لیکن  مفر نہیں  ہے  ترے اعتبار سے

سوزِ  فراقِ  یار  کا  عالم  نہ پوچھیئے
جیسے  گزر رہا  ہوں کسی خار زار سے

یارب  مجھے عطا  ہو کئی سو برس کی نیند
تنگ آ گیا ہوں گردشِ  لیل و نہار سے

محفل میں لب پہ تیری شکایت نہ تھی مگر
آہیں نکل رہی تھیں مرے قلبِ زار سے

اب سوچنا  پڑا  کہ  زمانہ  بدل گیا
ورنہ  عجب لگاؤ  تھا ہر غمگسار سے

کیا جانے  حشر کیا ہو تری کج ادائی کا
باہر  زبان اپنی ہوئی  اختیار سے

اک عمر ابتلائے کشائش میں کٹ گئی
کیا عرضِ حال  ہو گا بھلا خاکسار سے

یہ اور بات ہے کہ مرا بخت جاگ اٹھا
ویسے  نہ  تھی  امید  تغافل شعار سے

سوزِ الم سے دشت میں اٹھتے نہیں قدم
ہر  آبلہ  لپٹنے  لگا نوکِ خار سے

ناظرؔ  نگاہِ  یار  کی  سرمستیاں تو دیکھ
ساغر نہ چھوٹ جائے کہیں بادہ خوار سے
٭٭٭



حشر برپا ہوا یوں تیرے چلے جانے سے
دل کسی طرح  بہلتا نہیں بہلانے سے

جان دیتا ہے  محبّت میں وہ خود ہی جل کر
شمع  کو بیر  تو  ہوتا نہیں  پروانے سے

کر دیا  مستِ مئے شوق پلا کر  مجھ  کو
چشمِ مخمور  سے  ہو  یا  کسی  پیمانے سے

تیر نظروں کے نہ پھینکا کرو میری جانب
چھیڑ اچھی نہیں وحشت زدہ دیوانے سے

جان پہچان کبھی  جیسے نہیں تھی  مجھ سے
منہ چھپا کر وہ گزر جاتے ہیں بیگانے سے

اس قدر عام  ہوا  عہدِ وفا سے پھرنا
اب حقائق بھی نظر آتے ہیں افسانے سے

ہائے کیا دن تھے کہ جب فکرِ نشیمن ہی نہ تھی
بجلیاں اور  کڑکنے لگیں  گھبرانے سے

درمیاں جب نہ رہی رسمِ محبّت قائم
تیرے آنے سے غرض ہے نہ ترے جانے سے

کھوکھلے گھر میں  نہیں جز  ترے کوئی ناظرؔ
فائدہ  کچھ نہیں  دیواروں کو سمجھانے سے
٭٭٭



مستِ غرورِ حسن کو جا کر دیکھیں گے
حالِ دلِ  بے تاب سنا کر دیکھیں گے

چین ملا  کب دنیا کو  بہکانے سے
وہ مجھ  کو دیوانہ بنا کر دیکھیں گے

اس کے لیئے  بیدارِ شبِ غم کب سے ہیں
چاند کو اپنے  پاس بلا کر دیکھیں گے

حسن ادب سے حل نہ ہوئی  کوئی  مشکل
بہرِ خدا اب  شور مچا کر دیکھیں گے

چاکِ جگر سے  سوزشِ  باطن ظاہر ہے
ہنسنے  والے  تجھ کو رلا کر دیکھیں گے

کوئی نہیں جو مان لے اپنی  اے ناظرؔ
جلوۂ  جاناں  نظر چرا کر دیکھیں گے
٭٭٭



سَر یوں جھکا کہ سجدے میں  گرنا پڑا مجھے
آیا  نظر  جہاں بھی  ترا  نقشِ پا مجھے

جینے  دے  اور نہ مرنے دے عہدِ وفا مجھے
تم  نے  یہ کس گناہ کی دی ہے سزا مجھے

بے وجہ  کیوں  لگے گی  کوئی  بد دعا مجھے
لے جائے لینے آئے تو  سیلِ بلا مجھے

کس طرح بھائے گی  تری کافر  ادا مجھے
مدّت ہوئی کہ ہوش نہیں  ہے ذرا مجھے

جو کچھ بھی دل میں آئے خوشی سے  سنا مجھے
امرت نہیں تو  زہر  کا  پیالہ  پلا مجھے

الٹا گلہ  ہے  مجھ سے  خود اپنے قصور کا
" یہ  تو  جناب  پہلے سے معلوم تھا مجھے "

پروازِ  شوق بڑھ گئی امّیدِ وصل  میں
اپنی  بلندیوں  سے  نہ ظالم  گرا مجھے

غرقِ  جمالِ  عارض  و  لب ہے مری نگاہ
منہ پھیر  کر نہ کیجیئے  صاحب خفا مجھے

تجویزِ  اختلاطِ  بہم  بے سبب نہ  کر
کس  نے کہا  کہ آتی نہیں ہے حیا مجھے

جانے کدھر سے آن  پڑی ہیں مصیبتیں
اے  یادِ  یار  تُو  ہی بتا  کیا ہوا مجھے

اک دشتِ  غم ہے  اور مری آزردہ زندگی
میں  لڑکھڑا رہا  ہوں  ذرا  تھامنا مجھے

آنکھوں  پہ گیسوؤں کے جو بادل بکھر گئے
دن پر بھی ہو رہا ہے  گماں رات کا مجھے

ناظرؔ فراقِ  یار  میں کیا  عرضِ  مدّعا
ہے چارہ ساز  کون جو  دے آسرا مجھے
٭٭٭




رہ  شوق میں غم آرزو سے مفر  نہیں
دل مبتلا  کو خیال  دیدۂ تر نہیں

بجز ایک یاد حبیب کے  ہو  عزیز کیا
مجھے اور کوئی جنون شام و سحر نہیں

نہ ہے زندگی  نہ ممات منزل  آخری
یہ عجب سفر ہے کہ انتہائے سفر نہیں

سر  انجمن ہے  مذاق  شعر و سخن مگر
بمزاج  اہل  کمال  فکرو نظر نہیں

وہی ایک ذات ہے مقتدر نہیں ماسوا ہ
کسی  اور کو کوئی  امتیاز دگر نہیں

مجھے فکر ہے  کہ سجاؤں مجلس آشیاں
مگر  اعتبار  رقص برق و شرر نہیں

میں وہ آئینہ ہوں کشاکش غم زیست کا
جسے ناظرؔ اپنے مقام کی بھی خبر نہیں
٭٭٭



کیا کیا  نہ راہِ شوق میں ہم پر  ستم ہوئے

جب ضبطِ  درد  و غم کا سہارا نہ  مل سکا
شرمندہ اپنے آپ سے اے چشمِ نم ہوئے

شامِ وصال  ہے  نہ ہی صبحِ جمال ہے
یوں  گردشِ زمانہ  کے  زیرِ قدم ہوئے

اک عمر اختلافِ نظر  میں  گزر گئی
وہ  کونسی گھڑی تھی کہ جب ہم  بہم ہوئے

پیچیدہ یوں ہوئے مری منزل کے راستے
جیسے کہ گیسوؤں کے ترے  ،پیچ و خم ہوئے

نامہ لکھا تھا اس نے کچھ اس سادگی کے ساتھ
ہم بھی  فریب  خوردۂ سحرِ قلم ہوئے

تنہا نہ  رہ  سکا  میں  ترا ساتھ چھوڑ کر
ارماں  ہجومِ یاس میں  پھر تازہ دم ہوئے

باقی  رہا نہ جوشِ  تمنّائے  بادہ کش
جب دیدہ ہائے  گل  نمطِ جامِ جم ہوئے

جو  تھے زمانہ ساز  چلے  اپنی  راہ  پر
بے بس رہینِ وعدۂ  لطف  و  کرم ہوئے

آوارگیِ دشتِ  تمنّا نہ  پوچھیئے
جتنے بھی  ولولے تھے  محبت میں کم ہوئے

کیا رہ گیا ہے کہنے  کو  ناظر ؔ شبِ فراق
گرتے ہوئے ستارے شریکِ الم ہوئے
٭٭٭




عید کی صبح نئی  آس کے  سورج نے  کہا
رنگ  لانے کو ہے  ناچیز ترے دل کی  دعا
آسمانوں  سے  اترنے  کو  ہے  انعامِ وفا
تلخی حسرتِ ناکام  کا اب  کر نہ گِلا
٭٭

گلشنِ  عمرِ  فسردہ  میں بہار  آئے گی
عشرتِ  عہدِ  گزشتہ  کا سماں  لائے گی
زندگی  رنج  و  مصیبت  سے  اماں پائے گی
نشہ شوق  میں  ہر سانس  غزل  گائے گی
٭٭

سن کے  شاعر نے کہا  مل گئی  منزل مجھ کو
کوئی  مشکل  ہو  مری  جاں نہیں مشکل مجھ کو
دیں  گی  آواز  گلستاں  سے عنادل مجھ کو
سیر  کروائے  گا  جنت  کی  مرا دل مجھ کو
٭٭



یادوں کے دریچہ سے جب دل میں وہ آتا ہے
ہوتا ہے مخاطب اور یوں پوچھتا جاتا ہے
کیا تم وہی  شاعر ہو  ،  کیا تم  وہی  ناظرؔ ہو
جو دشت و  بیاباں کے مظلوم مسافر ہو
جو روتے رلاتے تھے اور  اشک بہاتے تھے
جو ہنستے ہنساتے تھے  اور شور مچاتے تھے
کیا حال  تمہارا ہے  ،  آئینہ ذرا دیکھو
جو بجھ  گئی  رو روکر  ،  وہ شمع  جلا دیکھو
میں سوچتا رہتا ہوں کس طرح سے لب کھولوں
رودادِ  غمِ  ہستی بولوں کہ نہیں بولوں
صورت نہیں کوئی  بھی  الجھن سے  رہائی کی
صحرا میں سزا  کم ہے کیا آبلہ پائی کی
٭٭٭


کیا کچھ  گزر رہی ہے  ہم پر  تری گلی میں

اے  زخم دل  سنبھل کر  روداد غم سنانا
باقی بچا  ہی  کیا ہے  بے جان  زندگی میں

ہم بے نیاز صورت مستغنیِ طرب  تھے
ظالم  نے  مار  ڈالا توبہ  ہنسی  ہنسی میں

حسن وفا تھا  پنہاں  ظاہر تھی بے وفائی
آئینہ اس نے دیکھا  جب حال بے رخی میں

جیسے ارادہ دل میں جیسے صدف میں گوہر
انسانیت  چھپی  ہے بے  لوث  دوستی میں

تہہ کو پہنچنے  والے  مستغرق  سخن ہیں
مفہوم  گوندھتے  ہیں  الفاظ  کی لڑی میں

دیتا رہا ہوں کب سے ہرجانہ اس کا ناظرؔ
جو بات میرے لب پر آئی تھی بے خودی میں
٭٭٭

جس طرح  سے  ممکن ہو  زندگی بسر کر لو

کس لیئے پڑے ہو تم  ٹھوکروں میں  دنیا کی
میری جاں میں آ جاؤ میرے دل میں گھر کر لو

ٹھیس کوئی پہنچی ہو مجھ سے گرچہ غفلت میں
کام بھول جانے  کا  سب  سے پیشتر کر لو

دشت کا  سفر  تنہا  کاٹنا نہیں آساں
میں بھی اک  مسافر ہوں  مجھ کو  ہمسفر کر لو

دیکھتا ہوں  میں خود کو  آئینہ  میں چہرہ کے
تم  ادھر  نظر  کر لو  یا ادھر  نظر کر لو

زندگی محبت کی  دھوپ چھاؤں  جیسی ہے
چاہے  ہنس کے پیش آؤ  چاہے چشم تر کر لو

تم ہی اک نہیں ناظرؔ آنکھ سب ہی رکھتے ہیں
وقت  کم ہے محفل میں بات  مختصر کر لو
٭٭٭


تلخی  رسوائی  میرے  نام تک پہنچی نہیں

جذبۂ بے اختیار شوق وصل  یار کی
گفتگو  جاری ہے  لیکن  شام تک پہنچی نہیں

صدمۂ یک جنبش لب سے نہ دل کو توڑ دے
تیری بے باکی اگر  الزام تک پہنچی نہیں

مئے  فروشی  سے  تری انکار کب ہے ساقیا
میرے حصہ  کی مگر کیوں جام تک پہنچی نہیں

عقدہ  ہائے زلف جاناں گو کہ سلجھاتے رہے
بات لیکن گردش ایام تک پہنچی نہیں

خلعت حسن ادب  سے  مل گئی  ہے سادگی
زندگی  میری کبھی  نیلام تک پہنچی نہیں

اس کی جانب میں تھا ناظرؔ اور وہ میری طرف
بیقراری نامہ  و  پیغام تک پہنچی نہیں
٭٭٭



وہ  نہ  مانے گا  تو اس کی پردہ داری ہی سہی

شدت  درد  و  الم سے  بے قراری ہی سہی
جو بھی ہونا  ہے  وہ  ہو گا  زخم کاری ہی سہی

جان من  حالات  کی  ناسازگاری ہی سہی
گا ہے ما ہے  تو  ملو  غفلت شعاری ہی سہی

راہ  الفت  سیج پھولوں کی نہیں ہے تو نہ ہو
دھوپ  دن  کی رات کی اختر شماری ہی سہی

میں  ہوں پابند  وفا ہرگز بدل سکتا نہیں
تیری  ہر  اک بات سچائی سے عاری ہی سہی

کج کلاہی تو  کجا  ،  ہے زندگی  بھی معجزہ
کچھ نہیں باقی  تو  راہ  و  رسم یاری ہی سہی

کوچۂ جاناں میں ہوں  لذت کش تحقیر دل
دشت  کی برگشتگی میں بردباری ہی سہی

جس  میں تم خوش ہو وہی ہے میرا دستور عمل
وصل شب  چھوڑو  سحر کی غمگساری ہی سہی

اپنے ویرانے میں اس کی مسکراہٹ ہے بہت
دور ہے گر  فصل  گل باد بہاری ہی سہی

مسئلے  ترک تعلق  سے  تو حل  ہوتے نہیں
کچھ نہیں  تیری  خطا  ساری ہماری ہی سہی

وہ اگر پردہ میں ہے  تصویر اس کی دیکھ لوں
بے خودی میں  چند  لمحے  ہوشیاری ہی سہی

ہوش میں رہتا نہیں کہتا ہوں جب ناظرؔ غزل
اور  وہ کہتے ہیں شغل  بادہ  خواری ہی سہی
٭٭٭


نوحہ گر ہیں پھول بلبل کی صدا باقی نہیں

بجھ گئے ایک ایک کر کے آرزوؤں کے دیئے
خانۂ ویراں ہے دل کوئی دیا باقی نہیں

ریت کچھ ایسی چلی  اک دوسرے سے دور ہیں
دوستوں کے درمیاں رسمِ وفا باقی نہیں

سر جھکا میرا  تو در  در  پر جبیں  جھکنے لگی
اب کسی سے کچھ طلب یا التجا باقی نہیں

راہِ الفت میں مرا  ہونا ہے اک زندہ ثبوت
کون کہتا ہے کہ میرا نقشِ پا باقی نہیں

شدت جذبات میں ہونٹوں پہ تالے پڑ گئے
آنکھ میں آنسو تو ہیں لب پر دعا باقی نہیں

چشمِ ناظرؔ کے لیئے  دوبھر  ہے دنیا کا سماں
زندگی باقی ہے  جینے کی  ادا باقی نہیں
٭٭٭


میں ہوں  آئینہ  تو  پہلو  میں بٹھا لے مجھ کو

اے  چراغِ  شبِ غم تجھ  سے  نہیں کوئی گلہ
اپنا  پروانہ سمجھ  اور  جلا لے مجھ کو

تیرنا سیکھنا  چاہوں  بھی  تو  کیسے  سیکھوں
کر دیا موجوں نے  طوفاں  کے حوالے مجھ کو

کیا عجب ہے کہ  مری  زیست  کا  پاسا پلٹے
جان جاناں  تو  اگر  اپنا  بنا لے مجھ کو

تیرا از راہِ  کرم مجھ  سے مسلسل  ملنا
ڈر رہا ہوں کسی مشکل  میں  نہ  ڈالے مجھ کو

زندہ  رکھنا  ہے تو سو  طرح  سے  مجبور نہ کر
ورنہ  یارب  تری دنیا  سے  اٹھا لے مجھ کو

رہرو  راہِ محبت  ہوں گنہگار  نہیں
کوچۂ  یار  سے  کیوں  کوئی نکالے مجھ کو

کبھی  منزل  کی  تمنا میں  قدم  بڑھتے ہیں
روک  دیتے ہیں کبھی پاؤں کے چھالے مجھ کو

شدّت رنج  و  الم  نے  کیا  بے جاں  ناظرؔ
لڑکھڑاتے ہیں  قدم  کوئی  سنبھالے مجھ کو
٭٭٭



کبھی  جل  گئے  ستارے  کبھی  بجھ گئے ستارے

ترا  حسن  ظن  مبارک  مگر  اے  فریب خوردہ
جو  اسیر درد  و  غم ہے  تری زلف کب سنوارے

یہ عجیب  زندگی  ہے  نہ  ہمیں سکوں  نہ  تم کو
نہ  ہمارے ساتھ اپنے  نہ  تمہارے ہیں تمہارے

بجز  ایک یاد  رفتہ  نہیں میرے  پاس  کچھ  بھی
میں اسے کہاں صدا دوں  وہ  مجھے  کہاں پکارے

زہے آبروئے ہستی کہ  ہے دشت  میں  بھی قائم
تجھے چاہتے ہیں کتنا  جو  پھرے ہیں مارے مارے

تری  ایک  اک  اذیت  ہے  مرے  لیئے کھلونا
میں جیوں  گا کس طرح سے کسی  اور  کے سہارے

کوئی  صبر  کرنے  والا  ہو  کہ جان  دینے والا
نہ گزر سکیں  جہاں  دن  تو وہ کس  طرح گزارے

ہے نرالی رسم دنیا  کبھی  کچھ  ہے  اور  کبھی کچھ
جو  سجائے  آسماں پر  وہی  قبر  میں  اتارے

سر  آب  بحر  الفت  میں  کھڑا  ہوا  ہوں ناظرؔ
نہ قریب موج  طوفاں  نہ  بعید  ہیں  کنارے
٭٭٭


مگر یہ  کس نے  کہا  زندگی قبول نہیں

فریب  چشم  طلبگار جلوہ عام  سہی
مجھے حقیقت پردہ دری قبول نہیں

جنون  شوق نے  سب قید و بند توڑ دیئے
ہمارے  بیچ مری  ذات  بھی قبول نہیں

نظر سے گزرے ہیں وہ  پیچ و خم زمانے کے
قبول ہے مجھے  رونا  ،  ہنسی قبول نہیں

چھپا دو  چاند ستاروں  کو میری نظروں سے
شب  فراق  مجھے  روشنی قبول نہیں

میں گرد  راہ  بنوں بھی  تو  خوش نصیبی ہے
وہ  کون  ہے  جسے تیری  گلی قبول نہیں

عجیب عالم  گل  رنگ  ہے  محبت  میں
کبھی قبول  ہے  ناظرؔ  کبھی قبول نہیں
٭٭٭


بھول  کر  حالتِ دل  یوں سرِ محفل نہ کہو

مرگ کا خوف تو کیا  زیست کی خواہش بھی نہیں
تم  جو  چاہو تو  مرے دل کو بھی  اب دل نہ کہو

فکرِ  مشّاطگیِ کاکلِ پیچاں نہ  سہی
میری مشکل  کو  خدا  کے لیئے  مشکل نہ کہو

زورِ  امواجِ تلاطم سے نمٹنا سیکھو
مفت مل جائے  تو ساحل کو  بھی ساحل نہ کہو

چپ  رہو گے  تو  شہیدوں کا  لہو  بولے گا
کون  کہتا ہے کہ  قاتل  کو بھی قاتل نہ کہو

صحبتِ  انجمِ رخشندہ مبارک ہو  تمہیں
مجھ  زمیں بوس  کو محبوس سلاسل نہ کہو

کھول دو دفترِ پیچیدگی  رسمِ  وفا
ہو سکے  تم  سے  تو  اپنے ہی مسائل نہ کہو

اپنے  آئینے  سے  صورت  کو چھپا لو ناظرؔ
حالِ  دل اپنا  کبھی اس کے مقابل نہ کہو
٭٭٭


لاکھ  اظہار کروں  ،  خاک نہ سمجھے گا کوئی

ٹال دے گا مری  فریاد  کو اپنی  کہہ کر
نالہ  ہائے دل  بے باک نہ سمجھے گا کوئی

کوئی  سمجھے نہ  مجھے  میری بلا سے لیکن
حسرت  دیدۂ  نمناک نہ سمجھے گا کوئی

تیر انداز  نگاہوں سے تو سب واقف ہیں
چشم مخمور کو فتراک نہ سمجھے گا کوئی

نار  نمرود  سے  کہتا  نہیں  کوئی  ناظرؔ
خلق کو  یوں خس  و  خاشاک نہ سمجھے گا کوئی
٭٭٭



نکل  پڑا  ہوں  میں لو اپنے آشیانے سے

برا لگے  ہے  کسی کو جو میرے آنے سے
میں  توڑلوں گا  تعلق شراب خانے سے

وفا کے نام سے ہونے لگی ہے اب نفرت
کچھ ایسے رنج  ملے ہیں مجھے زمانے سے

جھڑی  لگی ہوئی اشکوں کی رک نہیں پاتی
جبیں  چمٹ گئی  یہ کس کے آستانے سے

جناب مجھ  سے  خدا  واسطے کا بیر سہی
خلوص  بڑھ  تو گیا ہے کسی بہانے سے

یہی  تو  ایک طریقہ  ہے میرے جینے کا
نہ روکیئے گا  مجھے حالِ دل سنانے سے

شبِ فراق کا  غم  تو ہے  عارضی ناظرؔ
وہ خود کو بھول نہ جائیں مجھے بھلانے سے
٭٭٭



جیسے ڈوب گئے ہوں گہرے پانی میں

بھول گئے بھولے بھالے نادانی میں
جانیں چلی جاتی ہیں  کھینچا تانی میں

دنیا تو جس  اور  چلے  چلتی  جائے
لوٹنا کب  آیا  دریا کو  روانی میں

اک صورت آئینۂ  دل میں باقی ہے
اور نہیں ہے کوئی میری  کہانی میں

کاکلِ ہستی تم خود بھی  سلجھا نہ سکے
ڈال دیا ہے  مجھ کو  بھی  حیرانی میں

عالمِ گِل میں یوں ہے اب ہستی میری
جیسے  ڈوبتی  ناؤ  کسی  طغیانی میں

شعر کو ناظرؔ زندہ  رکھنا  مشکل ہے
روح نہ ہو جب تک الفاظ و معانی میں
٭٭٭





نکل جائے  نہ کچھ میری زباں سے

ہوا بیزار  میں  خود اپنی جاں سے
کہاں تک بات پہنچی ہے کہاں سے

جبیں سائی  کی  عادت ہو گئی ہے
اٹھے گا  سر نہ تیرے آستاں سے

کہاں تک  اپنے دل کو ہی ٹٹولوں
زمیں پر  آ بھی جاؤ  آسماں سے

تماشا دیکھیئے  برق  و  شرر کا
اٹھے  شعلے  ہمارے  آشیاں سے

مرے رونے سے برہم ہے زمانہ
کوئی  واقف  نہیں  سّر نہاں سے

دلِ برباد  سے یوں آہ  نکلی
کہ جیسے تیر  نکلا  ہو  کماں سے

بجز اک مرگِ عاجل کیا طلب ہو
بھکاری  اور  کیا  مانگے جہاں سے

نظر آتا نہیں اندھوں کو کچھ بھی
کوئی  کہہ دے  ستمگر  بدگماں سے

بپھر جائیں گے  ہم پر  اہلِ محفل
ملے گا  اور  کیا آہ  و  فغاں سے

صبا  کو  کیا  پڑی  ہے میری ،  ناظرؔ
خبر لائے نہ لائے  گلستاں سے
٭٭٭





جو بھی کرنا ہے  وہ  کر  ساتھ نہ دے گا کوئی

کس  کی ہوتی ہے یہ دنیا  جو  تمہاری  ہو گی
گر  ہوئی  زیر  و  زبر  ساتھ نہ دے گا کوئی

میرے  دل میں ہے محبت  مجھے ٹھکراتے ہو
کیا  نہیں  تم  کو  خبر  ساتھ نہ دے گا کوئی

چاند کا  رات میں سورج کاہے دن میں پہرہ
اے  زمیں شام  و  سحر ساتھ نہ دے گا کوئی

زندگی میری گزرتی ہے  مسافر  کی طرح
گھر  کی دیوار یں نہ در  ساتھ نہ دے گا کوئی

بانٹ کر فرحت  و  غم جیتے ہیں  جینے والے
ہیچ ہے دولت  و  زر  ساتھ  نہ دے گا کوئی

آج  ہر شخص  کو ہے اپنے ہی دامن کا خیال
دیکھ تا  حد  نظر ساتھ نہ دے گا کوئی

یہ  مرا شہر  ہے یا  گور  غریباں  ناظرؔ
لاکھ  چلاؤ  مگر ساتھ نہ دے گا کوئی
٭٭٭٭

مرحوم عبد اللہ ناظر کی اجازت اور سلیم باشوار کے تشکر کے ساتھ
ماخذ: سلیم باشوار کی مہیا کردہ فائلیں اور
http://abdullahnazir.com