زخمِ امید

جون ایلیا


غزلیں




فہرست

 


 

یہ میرا طورِ زندگی ہی نہیں

اے اُمید، اے اُمیدِ نو میداں
مجھ سے میّت تیری اُٹھی ہی نہیں

میں جو تھا اِس گلی کا مست خرام
اس گلی میں میری چلی ہی نہیں

یہ سنا ہے کہ میرے کوچ کے بعد
اُس کی خوشبو کہیں بسی ہی نہیں

تھی جو اِک فاختہ اُداس اُداس
صبح وہ شاخ سے اُڑی ہی نہیں

مجھ میں اب میرا جی نہیں لگتا
اور ستم یہ کے میرا جی ہی نہیں

وہ رہتی تھی جو دل محلے میں
وہ لڑکی مجھے ملی ہی نہیں

جائیے اور خاک اڑائیں آپ
اب وہ گھر کیا کے وہ گلی ہی نہیں

ہائے وہ شوق جو نہیں تھا کبھی
ہائے وہ زندگی جو تھی ہی نہیں



نام کو بھی اب اِضطراب نہیں

خون کر دوں تیرے شباب کا میں
مجھ سا قاتل تیرا شباب نہیں

اِک کتابِ وجود ہے تو صحیح
شاید اُس میں دُعاء کا باب نہیں

تو جو پڑھتا ہے بو علی کی کتاب
کیا یہ عالم کوئی کتاب نہیں

ہم کتابی صدا کے ہیں لیکن
حسبِ منشا کوئی کتاب نہیں

بھول جانا نہیں گناہ اُسے
یاد کرنا اُسے ثواب نہیں

پڑھ لیا اُس کی یاد کا نسخہ
اُس میں شہرت کا کوئی باب نہیں





میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں
یہ میرا خون ہے ، شراب نہیں

میں سرابی ہوں میری آس نا چھین
تو میری آس ہے سراب نہیں

نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال
طاقتِ شوخیِ جواب نہیں

اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب
اور خود جیسا اب دو آب نہیں

غم ابد کا نہیں ہے اُن کا ہے
اور اس کا کوئی حساب نہیں

بودش اک رَو ہے ایک رَو یعنی
اس کی فطرت میں انقلاب نہیں




کہ نہ اُس شخص کو بھولیں نا اس کو یاد رکھیں

عہد اُس کُوچۂ دل سے ہے سو اُس کوچہ میں
ہے کوئی اپنی جگہ ہم جسے برباد رکھیں

کیا کہیں کتنے نُقطے ہیں جو برتے نہ گئے
خوش بدن عشق کریں اور ہم اُستاد رکھیں

بے ستون اک نواہی میں ہے شہرِ دل کی
تیشہ انعام کریں اور کوئی فریاد کریں

آشیانہ کوئی اپنا نہیں پر شوق یہ ہے
اک قفس لائیں کہیں سے، کوئی صیاد رکھیں




قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

اب تو منہ اپنا مت دکھاؤ مجھے
ناصحو میں سدھر گیا کب کا

آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل مری جان مر گیا کب کا

آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا

میرا فہرست سے نکال دو نام
میں تو خود سے مُکر گیا کب کا



مجھے فُرقت سکھائی جا رہی ہے

یہ ہے تعمیرِ دنیا کا زمانہ
حویلی دل کی ڈھائی جا رہی ہے

وہ شے جو صرف ہندوستان کی تھی
وہ پاکستان لائی جا رہی ہے

کہاں کا دین۔۔کیسا دین۔۔کیا دین
یہ کیا گڑ بڑ مچائی جا رہی ہے

شعورِ آدمی کی سر زمیں تک
خدا کی اب دہائی دی جا رہی ہے

بہت سی صورتیں منظر میں لا کر
تمنا آزمائی جا رہی ہے

مجھے اب ہوش آتا جا رہا ہے
خدا تیری خدائی جا رہی ہے

نہیں معلوم کیا سازش ہے دل کی
کہ خود ہی مات کھائی جا رہی ہے

ہے ویرانی کی دھوپ اور اک آنگن
اور اُس پر لو چلائی جا رہی ہے


گُماں ،گُماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی

عجب طرح رخِ آئندگی کا رنگ اُڑھا
دیارِ ذات میں از خود گزشتگی ہی رہی

حریم شوق کا عالم بتائیں کیا تم کو
حریمِ شوق میں بس شوق کی کمی رہی

پاسِ نگاہِ تغافل تھی اک نگاہ کہ رہی تھی
جو دل کے چہرۂ حسرت کی تازگی ہی رہی

بدل گیا سب ہی کچھ اس دیارِ بُودش میں
گلی تھی جو مری جان وہ تری گلی ہی رہی

تمام دل کے محلے اُجڑ چکے تھے مگر
بہت دنوں تو ہنسی ہی رہی، خوشی ہی رہی

وہ داستان تمھیں اب بھی یاد ہے کہ نہیں
جو خون تھوکنے والوں کی بے حسی ہی رہی

سناؤں میں کسے افسانۂ خیالِ ملال
تری کمی ہی رہی اور مری کمی ہی رہی



ذکر بھی اس سے کیا خلاء میرا
اس سے رشتہ ہی کیا رہا میرا

آج مجھ کو بہت برا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا

آخری بات تم سے کہنا ہے
یاد یہ رکھنا تم کہا میرا

اب تو کچھ بھی نہیں ہوں ویسے میں
کبھی وہ بھی تھا مبتلا میرا

وہ بھی منزل تلک پہنچ جاتا
اس نے ڈھونڈھا نہیں پتا میرا

تجھ سے مجھ کو نجات مل جائے
تو دعاء کر کہ ہو بھلا میرا

کیا بتاؤں بچھڑ گیا یاراں
اک بلقیس سے صبا میرا



وہ جو کیا کچھ نہ کرنے والے تھے
بس کوئی دم نہ بھرنے والے تھے

تھے گلے اور گرد باد کی شام
اور ہم سب بکھرنے والے تھے

وہ جو آتا تو اس کی خوشبو میں
آج ہم رنگ بھرنے والے تھے

صرف افسوس ہے یہ طنز نہیں
تم نہ سنورے ، سنورنے والے تھے

یوں تو مرنا ہے اک بار مگر
ہم کئی بار مرنے والے تھے





میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

تمھارے بعد بھلا کیا ہے وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو

تمھارے ہجر کی شب ہائے تار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

جنوں وہی ہے، وہی میں، مگر ہے شہر نیا
یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو

کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی
میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو

تمھاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھال لوں اگر اجازت ہو



تشنہ کامی کی سزا دو تو مزا آ جائے
تم ہمیں زہر پلا دو تو مزا آ جائے

میرِ محفل بنے بیٹھے ہیں بڑے ناز سے ہم
ہمیں محفل سے اُٹھا دو تو مزا آ جائے

تم نے اِحسان کیا تھا جو ہمیں چاہا تھا
اب وہ اِحسان جتا دو تو مزا آ جائے

اپنے یوسف کی زلیخا کی طرح تم بھی کبھی
کچھ حسینوں سے ملا دو تو مزا آ جائے

چین پڑتا ہی نہیں ہے تمھیں اب میرے بغیر
اب تمہی مجھ کو گنوا دو تو مزا آ جائے



نئی خواہش رچائی جا رہی ہے
تیری فُرقت منائی جا رہی ہے

نبھائی تھی نہ ہم نے جانے کس سے
کہ اب سب سے نبھائی جا رہی ہے

ہمارے دل محلے کی گلی سے
ہماری لاش لائی جا رہی ہے

کہاں لذت وہ سوزِ جستجو کی
یہاں ہر چیز پائی جا رہی ہے

خوشا اِحوال اپنی زندگی کا
سلیقے سے گنوائی جا رہی ہے

دریچوں سے تھا اپنے بیر ہم کو
سو خود دیمک لگائی جا رہی ہے



لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں

یہ شہرِ دارِ محتسب و مولوی ہی کیا
پیرِ مغان و رند و قلندر بھی کچھ نہیں

شیخِ حرم کو لقمے کی پروا ہے کیوں نہیں
مسجد بھی اس کی کچھ نہیں منبر بھی کچھ نہیں

مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں
شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں

جانی میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا
یہ اور بات ہے ترا پیکر بھی کچھ نہیں

بس اک غبارِ طور گماں کا بھی تہ با تہ
یعنی نظر بھی کچھ نہیں ، منظر بھی کچھ نہیں

ہے اب تو اک حالِ سکونِ ہمیشگی
پرواز کا تو ذکر ہی کیا ، پر بھی کچھ نہیں

پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص
یعنی وفائے عہد کا بستر بھی کچھ نہیں

گزرے گی جون شہر میں رشتوں کے کس طرح
دل میں بھی کچھ نہیں ہے، زباں پر بھی کچھ نہیں



ایک گماں کا حال ہے اور فقط گماں میں ہے
کس نے عذابِ جاں سہا ، کون عذابِ جاں میں ہے

لمحہ بہ لمحہ ، دم بہ دم ، آن بہ آن ، رم بہ رم
میں بھی گزشتگاں میں ہوں تو بھی گزشتگاں میں ہے

آدم و ذاتِ کبریا کرب میں ہیں جدا جدا
کیا کہوں اُن کو معجزہ ، جو بھی ہے امتحاں میں ہے

کیسا حساب کیا حساب ، حالتِ حال ہے عذاب
زخم نفس نفس میں ہے ، زہر زماں زماں میں ہے

**

جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے

اب کون زخم و زہر سے رکھے گا سلسلے
جینے کی اب ہوس ہے ہمیں ہم تو مر گئے

اب کیا کہوں کہ سارا محلہ ہے شرم سار
میں ہوں عذاب میں کہ میرے زخم بھر گئے

ہم نے بھی زندگی کو تماشہ بنا دیا
اس سے گزر گئے کبھی خود سے گزر گئے


گلہ کرو کہ گلہ بھی نہیں رہا اب تو


چنے ہوئے ہیں لبوں پر تیرے ہزار جواب
شکایتوں کا مزا بھی نہیں رہا اب تو


یقین کر جو تیری آرزو میں تھا پہلے
وہ لطف تیرے سوا بھی نہیں رہا اب تو


وہ سکھ وہاں کے خدا کی ہیں بخششیں کیا کیا
یہاں یہ دکھ کہ خدا بھی نہیں رہا اب تو



میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں
یہ مرا خون ہے شراب نہیں

میں سرابی ہوں میری آس نہ چھین
تو مری آس ہے سراب نہیں

نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال
طاقتِ شوخئ جواب نہیں

اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب
اور خود جیسا اب دوآب نہیں

غم ابد کا نہیں ہے آن کا ہے
اور اس کا کوئی حساب نہیں

بودش اک رَو ہے ایک رَو یعنی
اس کی فطرت میں انقلاب نہیں



آشوبِ وحدت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

روحِ کُل سے سب روحوں پر وصل کی حسرت طاری ہے
اک سرِّ حکمت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

بے احوالی کی حالت ہے شاید یا شاید کہ نہیں
پُر احوالیت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

مُختاری کے لب *سِلوانا* جبر عجب تر ٹھہرا ہے
ہیجانِ غیرت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

بابا الف ارشاد کناں ہیں پیشِ عدم کے بارے میں
حیرتِ بے حیرت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

معنی ہیں لفظوں سے برہم *قہر خموشیِ عالم* ہے
ایک عجب حجّت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں

موجودی سے انکاری ہے اپنی ضد میں نازِ وجود
حالت سی حالت برپا ہے۔۔اللہ ہُو کے باڑے میں


شام کا وقت ہے میاں۔۔چپ رہ

ہو گیا قصۂ وجود تمام
ہے اب آغازِ داستاں۔۔چُپ رہ

میں تو پہلے ہی جا چکا ہوں کہیں
تُو بھی جاناں نہیں یہاں۔۔چُپ رہ

تُو جہاں تھا جہاں جہاں تھا کبھی
تُو بھی اب تو نہیں وہاں۔۔چپ رہ

ذکر چھیڑا خدا کا پھر تو نے
یاں ہے انساں بھی رائگاں۔۔چُپ رہ

سارا سودا نکال دے سر سے
اب نہیں کوئی آستاں۔۔چُپ رہ

اہرمن ہو۔۔خدا ہو۔۔یا آدم
ہو چکا سب کا امتحاں۔۔چُپ رہ

درمیانی ہی اب سبھی کچھ ہے
تُو نہیں اپنے درمیاں۔۔چُپ رہ

اب کوئی بات تیری بات نہیں
نہیں تیری۔۔تری زباں۔۔چُپ رہ

ہے یہاں ذکر حالِ موجوداں
تُو ہے اب از گزشتگاں۔۔چُپ رہ

ہجر کی جاں کنی تمام ہوئی
دل ہوا جونؔ بے اماں چُپ رہ



بس ایک خیال چاہیے تھا

کب دل کو جواب سے غرض تھی
ہونٹوں کو سوال چاہیے تھا

شوق ایک نفس تھا اور وفا کو
پاسِ مہ و سال چاہیے تھا

اک چہرۂ سادہ تھا جو ہم کو
بے مثل و مثال چاہیے تھا

اک کرب میں ذات و زندگی ہیں
ممکن کو مُحال چاہیے تھا

میں کیا ہوں بس ملالِ ماضی
اُس شخص کو حال چاہیے تھا

ہم تم جو بچھڑ گئے ہیں ہم کو
کچھ دن تو ملال چاہیے تھا

وہ جسم۔۔جمال تھا سراپا
اور مجھ کو جمال چاہیے تھا

وہ شوخِ رمیدہ مجھ کو اپنی
بانہوں میں نڈھال چاہیے تھا

تھا وہ جو کمال۔۔شوقِ وصلت
خواہش کو زوال چاہیے تھا

جو لمحہ بہ لمحہ مل رہا ہے
وہ سال بہ سال چاہیے تھا
**


اور پھر کم ہی دھیان میں رکھا

کیا قیامت نمو تھی وہ جس نے
حشر اُس کی اٹھان میں رکھا

جوششِ خوں نے اپنے فن کا حساب
ایک چوب۔۔اک چٹان میں رکھا

لمحے لمحے کی اپنی تھی اِک شان
تُو نے ہی ایک شان میں رکھا

ہم نے پیہم قبول و رد کر کے
اُس کو اک امتحان میں رکھا

تم تو اس یاد کی امان میں ہو
اُس کو کِس کی امان میں رکھا

اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو
کچھ نہیں آسمان میں رکھا




جان ہم کو وہاں بُلا بھیجو

کیا ہمارا نہیں رہا ساون
زُلف یاں بھی کوئی گھٹا بھیجو

نئی کلیاں جو اَب کھِلی ہیں وہاں
اُن کی خوشبو کو اک ذرا بھیجو

ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
درد بھیجو نہ تم دوا بھیجو

دھُول اڑتی ہے جو اُس آنگن میں
اُس کو بھیجو۔۔صبا صبا بھیجو

اے فقیرو! گلی کے اُس گُل کی
تم ہمیں اپنی خاکِ پا بھیجو

شفقِ شامِ ہجر کے ہاتھوں
اپنی اُتری ہوئی قبا بھیجو

کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختو
کچھ نہیں۔۔کوئی بَد دُعا بھیجو



غم تو جانے تھے رائیگاں اُن کے


مست اُن کو گماں میں رہنے دے
خانہ برباد ہیں گماں اُن کے


یار سُکھ نیند ہو نصیب اُن کو
دُکھ یہ ہے دُکھ ہیں بے اماں اُن کے


کتنی سر سبز تھی زمیں اُن کی
کتنے نیلے تھے آسماں اُن کے


نوحہ خوانی ہے کیا ضرور انہیں
ان کے نغمے ہیں نوحہ خواں اُن کے



زخمِ اُمید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

اب تو منہ اپنا مت دکھاؤ مجھے
ناصحو میں سُدھر گیا کب کا

آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل مری جان مر گیا کب کا

آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا

میرا فہرست سے نکال دو نام
میں تو خود سے مُکر گیا کب کا



مجھ کو تو گِر کے مرنا ہے
باقی کو کیا کرنا ہے

شہر ہے چہروں کی تمثیل
سب کا رنگ اترنا ہے

وقت ہے وہ ناٹک جس میں
سب کو ڈرا کر ڈرنا ہے

میرے نقشِ ثانی کو
مجھ میں ہی سے اُبھرنا ہے

کیسی تلافی کیا تدبیر
کرنا ہے اور بھرنا ہے

جو نہیں گزرا ہے اب تک
وہ لمحہ تو گزرنا ہے

اپنے گماں کا رنگ تھا میں
اب یہ رنگ بکھرنا ہے

ہم دو پائے ہیں سو ہمیں
میز پہ جا کر چرنا ہے

چاہے ہم کچھ بھی کر لیں
ہم ایسوں کو سُدھرنا ہے

ہم تم ہیں اک لمحہ کے
پھر بھی وعدہ کرنا ہے



خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا

ہم نے لکھا نصابِ تیرہ شبی
اور بہ صد آب و تاب ہی لکھا

مُنشیانِ شہود نے تا حال
ذکرِ غیب و حجاب ہی لکھا

نہ رکھا ہم نے بیش و کم کا خیال
شوق کو بے حساب ہی لکھا

دوستو۔۔ہم نے اپنا حال اُسے
جب بھی لکھا خراب ہی لکھا

نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتوب
پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا

ہم نے اس شہرِ دین و دولت میں
مسخروں کو جناب ہی لکھا



تم سے بھی اب تو جا چُکا ہوں میں
دُور ہا دُور آ چُکا ہوں میں

یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چُکا ہوں میں

اس گمانِ گماں کے عالم میں
آخرش کیا بھُلا چُکا ہوں میں

اب ببر شیر اشتہا ہے میری
شاعروں کو تو کھا چُکا ہوں میں

میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں
شہر کے شہر ڈھا چُکا ہوں میں

حال ہے اک عجب فراغت کا
اپنا ہر غم منا چُکا ہوں میں

لوگ کہتے ہیں میں نے جوگ لیا
اور دھونی رَما چُکا ہوں میں

نہیں اِملا دُرست غالب کا
شیفتہ کو بتا چُکا ہوں میں


ہم میاں جان مرتے رہتے ہیں

ہائے جاناں وہ ناف پیالہ ترا
دل میں بس گھونٹ اترتے رہتے ہیں

دل کا جلسہ بکھر گیا تو کیا
سارے جلسے بکھرتے رہتے ہیں

یعنی کیا کچھ بھُلا دیا ہم نے
اب تو ہم خود سے ڈرتے رہتے ہیں

ہم سے کیا کیا خدا مکرتا ہے
ہم خدا سے مکرتے رہتے ہیں

ہے عجب اس کا حالِ ہجر کہ ہم
گاہے گاہے سنورتے رہتے ہیں

دل کے سب زخم پیشہ ور ہیں میاں
آن ہا آن بھرتے رہتے ہیں


ایک عجیب سکوت تھا ایک عجب صدا بھی تھی

ایک ملال کا سا حال محو تھا اپنے حال میں
رقص و نوا تھے بے طرف محفلِ شب بپا بھی تھی

سامعۂ صدائے جاں بے سروکار تھا کہ تھا
ایک گماں کی داستاں بر لبِ نیم وا بھی تھی

کیا مہ و سالِ ماجرا۔۔ایک پلک تھی جو میاں
بات کی ابتدا بھی تھی بات کی انتہا بھی تھی

ایک سرودِ روشنی خیمۂ شب کا خواب تھا
ایک خموش تیرگی سانحہ آشنا بھی تھی

دل تیرا پیشۂ گلہ کام خراب کر گیا
ورنہ تو ایک رنج کی حالتِ بے گلہ بھی تھی

دل کے معاملے جو تھے ان میں سے ایک یہ بھی ہے
اک ہوس تھی دل میں جو دل سے گریز پا بھی تھی

بال و پرِ خیال کو اب نہیں سمت وسُو نصیب
پہلے تھی ایک عجب فضا اور جو پُر فضا بھی تھی

خشک ہے چشمۂ سارِ جاں زرد ہے سبزہ زارِ دل
اب تو یہ سوچیے کہ یاں پہلے کبھی ہوا بھی تھی



عذابِ ہجر بڑھا لوں اگر اجازت ہو
اک اور زخم میں کھا لوں اگر اجازت ہو

تمہارے عارض و لب کی جدائی کے دن ہیں
میں جام منہ سے لگا لوں اگر اجازت ہو

تمہارا حسن۔۔تمہارے خیال کا چہرہ
شباہتوں میں چھُپا لوں اگر اجازت ہو

تمہیں سے ہے مرے ہر خوابِ شوق کا رشتہ
اک اور خواب کما لوں اگر اجازت ہو

تھکا دیا ہے تمہارے فراق نے مجھ کو
کہیں میں خود کو گِرا لوں اگر اجازت ہو

برائے نام بنامِ شبِ وصال یہاں
شبِ فراق منا لوں اگر اجازت ہو



فقط اک میرا نام تھا میرا

نکہتِ پیرہن سے اُس گُل کی
سلسلہ بے صبا رہا میرا

مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈھنے کی نہ تھی
مجھ میں کھویا رہا خدا میرا

تھوک دے خون جان لے وہ اگر
عالمِ ترکِ مُدعا میرا

جب تجھے میری چاہ تھی جاناں!
بس وہی وقت تھا کڑا میرا

کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا
اتنا آسان ہے پتا میرا

آ چکا پیش وہ مروّت سے
اب چلو کام ہو چکا میرا

آج میں خود سے ہو گیا مایوس
آج اِک یار مر گیا میرا


ذکر بھی اس سے کیا بَھلا میرا
اس سے رشتہ ہی کیا رہا میرا

آج مجھ کو بہت بُرا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا

آخری بات تم سے کہنا ہے
یاد رکھنا نہ تم کہا میرا

اب تو کچھ بھی نہیں ہوں میں ویسے
کبھی وہ بھی تھا مبتلا میرا

وہ بھی منزل تلک پہنچ جاتا
اس نے ڈھونڈا نہیں پتا میرا

تُجھ سے مُجھ کو نجات مِل جائے
تُو دُعا کر کہ ہو بَھلا میرا

کیا بتاؤں بچھڑ گیا یاراں
ایک بلقیس سے سَبا میرا


کہ دار پر گئے ہم اور پھر اُتر آئے

عجیب حال کے مجنوں تھے جو بہ عشوہ و ناز
بہ سوئے بادیہ محمل میں بیٹھ کر آئے

کبھی گئے تھے میاں جو خبر کو صحرا کی
وہ آئے بھی تو بگولوں کے ساتھ گھر آئے

کوئی جنوں نہیں سودائیانِ صحرا کو
کہ جو عذاب بھی آئے وہ شہر پر آئے

بتاؤ دام گرو چاہیے تمہیں اب کیا
پرندگانِ ہوا خاک پر اُتر آئے

عجب خلوص سے رخصت کیا گیا ہم کو
خیالِ خام کا تاوان تھا سو بھر آئے


حالتِ حال یک صدا مانگو

ہر نفس تم یقینِ منعم سے
رزق اپنے گمان کا مانگو

ہے اگر وہ بہت ہی دل نزدیک
اس سے دُوری کا سلسلہ مانگو

درِ مطلب ہے کیا طلب انگیز
کچھ نہیں واں سو کچھ بھی جا مانگو

گوشہ گیرِ غبارِ ذات ہوں میں
مجھ میں ہو کر مرا پتا مانگو

مُنکرانِ خدائے بخشندہ
اس سے تو اور اک خدا مانگو

اُس شکمِ رقص گر کے سائل ہو
ناف پیالے کی تم عطا مانگو

لاکھ جنجال مانگنے میں ہیں
کچھ نہ مانگو فقط دُعا مانگو


لَبِ دریا سراب بیچے ہیں

اور تو کیا تھا بیچنے کے لیے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

خود سوال ان لبوں سے کر کے میاں
خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں

زُلف کوچوں میں شانہ کش نے ترے
کتنے ہی پیچ و تاپ بیچے ہیں

شہر میں سب خراب حالوں نے
حال اپنے خراب بیچے ہیں

جانِ مَن تیری بے نقابی نے
آج کتنے نقاب بیچے ہیں

میری فریاد نے سکوت کے ساتھ
اپنے لب کے عذاب بیچے ہیں



دل کی حالت بہت خراب نہیں

بُود پَل پَل کی بے حسابی ہے
کہ محاسب نہیں حساب نہیں

خوب گاؤ بجاؤ اور پیو
ان دنوں شہر میں جناب نہیں

سب بھٹکتے ہیں اپنی گلیوں میں
تا بہ خود کوئی باریاب نہیں

تُو ہی میرا سوال ازل سے ہے
اور ساجن تیرا جواب نہیں

حفظ ہے *شمسِ بازغہ* مجھکو
پر میسر وہ ماہتاب نہیں

تجھ کو دل درد کا نہیں احساس
سو میری پنڈلیوں کو داب نہیں

نہیں جُڑتا خیال کو بھی خیال
خواب میں بھی تو کوئی خواب نہیں

سطرِ مُو اس کی زیرِ ناف کی ہائے
جس کی چاقو زنوں کو تاب نہیں


جب ہم کہیں نہ ہوں گے تب شہر بھر میں ہوں گے
پہنچے گی جو نہ اس تک ہم اس خبر میں ہوں گے

تھک کر گریں گے جس دم بانہوں میں تیری آ کر
اُس دَم بھی کون جانے ہم کس سفر میں ہوں گے

اے جانِ عہد و پیماں۔۔ہم گھر بسائیں گے ہاں
تُو اپنے گھر میں ہو گا۔۔ہم اپنے گھر میں ہوں گے

میں لے کے دل کے رشتے گھر سے نکل چکا ہوں
دیوار و دَر کے رشتے۔۔دیوار و دَر میں ہوں گے

تجھ عکس کے سوا بھی اے حُسن وقتِ رخصت
کچھ اور عکس بھی تو اس چشمِ تر میں ہوں گے

ایسے سراب تھے وہ ایسے تھے کچھ کہ اب بھی
میں آنکھ بند کر لوں تب بھی نظر میں ہوں گے

اس کے نقوشِ پا کو راہوں میں ڈھونڈنا کیا
جو اس کے زیر پا تھے وہ میرے سر میں ہوں گے

وہ بیشتر ہیں جن کو کل کا خیال کم ہے
تُو رُک سکے تو ہم بھی ان بیشتر میں ہوں گے

آنگن سے وہ جو پچھلے دالان تک بسے تھے
جانے وہ میرے سائے اب کِس کھنڈر میں ہوں گے

یہ تو کمر عجب ہے اِک سوچ ہے جو اَب ہے
اب جانے ہاتھ میرے کِس کمر میں ہوں گے



کوئی قاتل برسرِ کار آئے تو

سرخ رو ہو جاؤں میں تو یار ابھی
دل سلیقے سے سرِ دار آئے تو

وقت سے اب اور کیا رشتہ کریں
جانِ جاناں ہم تجھے ہار آئے تو

سب ہیں حامی آسماں کے اے زمیں
کوئی تیرا بھی طرفدار آئے تو

اے عزا دارو! کرو مجلس بپا
آدمی۔۔انسان کو مار آئے تو

***
ٹھہروں نہ گلی میں تری وحشت نے کہا تھا
میں حد سے گزر جاؤں محبت نے کہا تھا

دَر تک تیرے لائی تھی نسیمِ نفس انگیز
دَم بھر نہ رُکوں یہ تیری نکہت نے کہا تھا

احسان کسی سرو کے سائے کا نہ لوں میں
مجھ سے یہ ترے فتنۂ قامت نے کہا تھا

مارا ہوں مشیت کا نہیں کچھ مری مرضی
یہ بھی ترے قامت کی قیامت نے کہا تھا

دل شہر سے کر جاؤں سفر میں سوئے دنیا
مجھ سے تو یہی میری سہولت نے کہا تھا

سو ہم اس کی برائی کرتے ہیں

پسند آتا ہے دل سے یوسف کو
وہ جو یوسف کے بھائی کرتے ہیں

ہے بدن خوابِ وصل کا دنگل
آؤ زور آزمائی کرتے ہیں

اس کو اور غیر کو خبر ہی نہیں
ہم لگائی بجھائی کرتے ہیں

ہم عجب ہیں کہ اس کو بانہوں میں
شکوۂ نارسائی کرتے ہیں

حالتِ وصل میں بھی ہم دونوں
لمحہ لمحہ جدائی کرتے ہیں

آپ جو میری جاں ہیں۔۔میں دل ہوں
مجھ سے کیسے جدائی کرتے ہیں

با وفا ایک دوسرے سے میاں
ہر نفس بے وفائی کرتے ہیں

جو ہیں سرحد کے پار سے آئے
وہ بہت خود ستائی کرتے ہیں

پَل قیامت کے سود خوار ہیں *جون*
یہ ابد کی کمائی کرتے ہیں


میں نہ ٹھہروں نہ جان تُو ٹھہرے
کون لمحوں کے رُو برو ٹھہرے

نہ گزرنے پہ زندگی گزری
نہ ٹھہرنے پہ چار سُو ٹھہرے

ہے مری بزمِ بے دلی بھی عجیب
دلِ پُر خوں جہاں سبو ٹھہرے

میں یہاں مدتوں میں آیا ہوں
ایک ہنگامہ کُو بہ کُو ٹھہرے

محفلِ رخصتِ ہمیشہ ہے
آؤ اک حشر ہا و ہو ٹھہرے

اک توجہ عجب ہے سمتوں میں
کہ نہ بولوں تو گفتگو ٹھہرے

کج ادا تھی بہت اُمید مگر
ہم بھی جونؔ ایک حیلہ جو ٹھہرے

میں جو ہوں۔۔کیا نہیں ہوں میں خود بھی
خود سے بات آج دُو بدو ٹھہرے

باغِ جاں سے مِلا نہ کوئی ثمر
جونؔ ہم تو نمو نمو ٹھہرے



یاد آئے گی اب تری کب تک

جانے والوں سے پوچھنا یہ صبا
رہے آباد دل گلی کب تک

ہو کبھی تو شرابِ وصل نصیب
پیے جاؤں میں خون ہی کب تک

دل نے جو عمر بھر کمائی ہے
وہ دُکھن دل سے جائے گی کب تک

جس میں تھا سوزِ آرزو اس کا
شبِ غم وہ ہوا چلی کب تک

بنی آدم کی زندگی ہے عذاب
یہ خدا کو رُلائے گی کب تک

حادثہ زندگی ہے آدم کی
ساتھ دے گی بَھلا خوشی کب تک

ہے جہنم جو یاد اب اس کی
وہ بہشتِ وجود تھی کب تک



وہ صبا اس کے بِن جو آئی تھی
وہ اُسے پوچھتی رہی کب تک

میر جونی! ذرا بتائیں تو
خود میں ٹھیریں گے آپ ہی کب تک

حالِ صحنِ وجود ٹھیرے گا
تیرا ہنگامِ رُخصتی کب تک

میں سہوں کربِ زندگی کب تک
رہے آخر تری کمی کب تک

کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک

اب فقط یاد رہ گئی ہے تری
اب فقط تری یاد بھی کب تک

میں بھلا اپنے ہوش میں کب تھا
مجھ کو دنیا پُکارتی کب تک

خیمہ گاہِ شمال میں۔۔۔آخر
اس کی خوشبو رچی بسی کب تک

اب تو بس آپ سے گلہ ہے یہی
یاد آئیں گے آپ ہی کب تک

مرنے والو ذرا بتاؤ تو
رہے گی یہ چلا چلی کب تک

جس کی ٹوٹی تھی سانس آخرِ شب
دفن وہ آرزو ہوئی کب تک

دوزخِ ذات باوجود ترے
شبِ فرقت نہیں جلی کب تک

اپنے چھوڑے ہوئے محلوں پر
رہا دورانِ جاں کنی کب تک

نہیں معلوم میرے آنے پر
اسکے کوچے میں لُو چلی کب تک



تُو کون ہے اور ہے بھی کیا تو

کیوں مجھ میں گنوا رہا ہے خود کو
مجھ ایسے یہاں ہزار ہا تو

ہے تیری جدائی اور میں ہوں
ملتے ہی کہیں بچھڑ گیا تو

پوچھے جو تجھے کوئی ذرا بھی
جب میں نہ رہوں تو دیکھنا تو

اک سانس ہی بس لیا ہے میں نے
تو سانس نہ تھا سو کیا ہوا تو

ہے کون جو تیرا دھیان رکھے
باہر مرے بس کہیں نہ جا تو



آئینہ بے مثال کِس کا تھا

سفری اپنے آپ سے تھا میں
ہجر کِس کا۔۔وصال کِس کا تھا

میں تو خود میں کہیں نہ تھا موجود
میرے لب پر سوال کِس کا تھا

تھی مری ذات اک خیال آشوب
جانے میں ہم خیال کِس کا تھا

جب کہ میں ہر نفس تھا بے احوال
وہ جو تھا میرا حال کِس کا تھا

دوپہر! بادِ تُند! کوچۂ یار!
وہ غبارِ ملال کِس کا تھا


تھا تو اک شہر خاکساروں کا

پہلے رہتے تھے کوچۂ دل میں
اب پتہ کیا ہے دل فگاروں کا

کوئے جاناں کی ناکہ بندی ہے
بسترا اب کہاں ہے یاروں کا

چلتا جاتا ہے سانس کا لشکر
کون پُرساں ہے یادگاروں کا

اپنے اندر گھسٹ رہا ہوں میں
مجھ سے کیا ذکر رہ گزاروں کا

ان سے جو شہر میں ہیں بے دعویٰ
عیش مت پوچھ دعویداروں کا

کیسا یہ معرکہ ہے برپا جو
نہ پیادوں کا نہ سواروں کا

بات تشبیہہ کی نہ کیجیو تُو
دہر ہے صرف استعاروں کی

میں تو خیر اپنی جان ہی سے گیا
کیا ہوا جانے جانثاروں کا

کچھ نہیں اب سوائے خاکستر
ایک جلسہ تھا شعلہ خواروں کا


کوئی اثر کیے بغیر کوئی اثر لیے بغیر

کوہ و کمر میں ہم صفیر کچھ نہیں اب بجز ہوا
دیکھیو پلٹیو نہ آج شہر سے پَر لیے بغیر

وقت کے معرکے میں تھیں مجھ کو رعایتیں ہوس
میں سرِ معرکہ گیا اپنی سِپر لیے بغیر

کچھ بھی ہو قتل گاہ میں حُسنِ بدن کا ہے ضرر
ہم نہ کہیں سے آئیں گے دو پر سر لیے بغیر

قریۂ گریہ میں مرا گریہ ہنرورانہ ہے
یاں سے کہیں ٹلوں گا میں دادِ ہنر لیے بغیر

اُسکے بھی کچھ گِلے ہیں دل۔۔ان کا حساب تم رکھو
دید نے اس میں کی بسر اس کی خبر لیے بغیر

اُس کا سخن بھی جا سے ہے اور وہ یہ کہ جونؔ تم
شہرۂ شہر ہو تو کیا شہر میں گھر لیے بغیر


سو پیہم گنگنایا جا رہا ہے

نہیں مطلب کسی پہ طنز کرنا
ہنسی میں مسکرایا جا رہا ہے

وہاں اب میں کہاں اب تو وہاں سے
مرا سامان لایا جا رہا ہے

عجب ہے ایک حالت سی ہوا میں
ہمیں جیسے گنوایا جا رہا ہے

اب اس کا نام بھی کب یاد ہو گا
جسے ہر دَم بھُلایا جا رہا ہے

چراغ اس طرح روشن کر رہا ہوں
کہ جیسے گھر جلایا جا رہا ہے

بَھلا تم کب چلے تھے یوں سنبھل کر
کہاں سے اُٹھ کے جایا جا رہا ہے

تو کیا اب نیند بھی آنے لگی ہے
تو بستر کیوں بِچھایا جا رہا ہے


بس اک دیوار ہے اور بے دری ہے

اگرچہ زہر ہے دنیا کی ہر بات
میں پی جاؤں اسی میں بہتری ہے

تُو اے بادِ خزاں اس گُل سے کہیو
کہ شاخ اُمید کی اب تک ہری ہے

گلی میں اس نگارِ ناشنو کی
فغاں کرنا ہماری نوکری ہے

کوئی لہکے خیابانِ صبا میں
یہاں تو آگ سینے میں بھری ہے


سارا نشہ اُتر گیا جانم

اک پلک بیچ رشتۂ جاں سے
ہر زمانہ گزر گیا جانم

تھا غضب فیصلے کا اِک لمحہ
کون پھر اپنے گھر گیا جانم

جانے کیسی ہوا چلی اک بار
دل کا دفتر بِکھر گیا جانم

اپنی خواب و خیال دنیا کو
کون برباد کر گیا جانم

تھی ستم ہجر کی مسیحائی
آخرش زخم بھر گیا جانم

اب بَھلا کیا رہا ہے کہنے کو
یعنی میں بے اثر گیا جانم

نہ رہا دل نہ داستاں دل کی
اب تو سب کچھ بسر گیا جانم

زہر تھا اپنے طور سے جینا
کوئی اِک تھا جو مر گیا جانم



دل میری جان تیرے بس کا نہیں

راہ تم کارواں کی لو کہ مجھے
شوق کچھ نغمۂ جرس کا نہیں

ہاں میرا وہ معاملہ ہے کہ اب
کام یارانِ نکتہ رَس کا نہیں

ہم کہاں سے چلے ہیں اور کہاں
کوئی اندازہ پیش و پس کا نہیں

ہو گئی اس گِلے میں عمر تمام
پاس شعلے کو خاروخس کا نہیں

مُجھ کو خود سے جُدا نہ ہونے دو
بات یہ ہے میں اپنے بس کا نہیں

کیا لڑائی بَھلا کہ ہم میں سے
کوئی بھی سینکڑوں برس کا نہیں



اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی

یہ آدمی کے ہیں انفاس جس کے زہر فروش
اسے بٹھاؤ کہ میرا مزاج داں ہے یہی

کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر تو سہہ لیں گے
نظر سے دُور نہ ہونا کہ امتحاں ہے یہی

میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں
جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی

یہ ایک لمحہ جو دریافت کر لیا میں نے
وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی

تم اُن میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹھہرے ہیں
سنو کہ وجہِ غمِ دل شگستگاں ہے یہی


ہے آگ جامہ زیب۔۔دھواں بے لباس ہے

ہے یہ فضا ہزار لباسوں کا اک لباس
جو بے لباس ہے وہ کہاں بے لباس ہے

ملبوس تار تارِ نفس ہے زیانِ سود
سُودِ زیان یہ ہے کہ زیاں بے لباس ہے

محمل نشینِ رنگ! کوئی پوستینِ رنگ
ریگِ رواں ہوں۔۔ریگِ رواں بے لباس ہے

اب پارہ پارہ پوششِ گفتار بھی نہیں
ہیں سانس بے رفو سو زیاں بے لباس ہے

صد جامہ پوش جس کا ہے جسم برہنہ ابھی
خلوت سرائے جاں میں وہ جاں بے لباس ہے

ہے دل سے ہر نفس ہوسِ دید کا سوال
خلوت ہے وہ کہاں۔۔وہ جہاں بے لباس ہے

ہے بُود اور نبود میں پوشش نہ پیرہن
یاراں مکین کیا کہ مکاں بے لباس ہے

تُو خود ہی دیکھ رنگِ بدن اپنا جوش رنگ
تُو اپنے ہر لباس میں جاں بے لباس ہے

غم کی برہنگی کو کہاں سے جُڑے لباس
میں لب سیے ہوئے ہوں۔۔فغاں بے لباس ہے


آج کے بعد ہم ہوا کے ہیں

ہم کو ہر گز نہیں خدا منظور
یعنی ہم بے طرح خدا کے ہیں

کائناتِ سکوت بس خاموش
ہم تو شوقِ سخن سرا کے ہیں

جتنے بھی اہلِ فن ہیں دنیا کے
ملتمس بابِ التجا کے ہیں

باز آ جایئے کہ سب فتنے
آپ کی کیوں کے اور کیا کے ہیں

اب کوئی گفتگو نہیں ہوگی
ہم فنا کے تھے ہم فنا کے ہیں

ہم کہ ہیں جونؔ حاصلِ ایجاد
کیا ستم ہے کہ ہم فنا کے ہیں



یہاں تو کوئی مَن چلا ہی نہیں
کہ جیسے یہ شہرِ بَلا ہی نہیں

ترے حسرتی کے ہے دل پر یہ داغ
کوئی اب ترا مبتلا ہی نہیں

ہوئی اُس گلی میں فضیحت بہت
مگر میں وہاں سے ٹَلا ہی نہیں

نِکل چل کبھی آپ سے جانِ جاں
ترے دل میں تو ولولہ ہی نہیں

دمِ آخر جو بچھڑے تو بس
پتا بھی کسی کا چَلا ہی نہیں

قیامت تھی اُس کے شکم کی شکن
کوئی بس مرا پھر چلا ہی نہیں

اُسے خون سے اپنے سینچا مگر
تمنا کا پودا پَھلا ہی نہیں

کہاں جا کے دنیا کو ڈالوں بَھلا
ادھر تو کوئی مزبلہ ہی نہیں

اک انبوہِ خونیں دلاں ہے مگر
کسی میں کوئی حوصلہ ہی نہیں



اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے

جانِ جاں تجھ کو اب تری خاطر
یاد ہم کوئی دَم نہیں کرتے

دوسری ہار کی ہوس ہے سو ہم
سرِ تسلیم خم نہیں کرتے

وہ بھی پڑھتا نہیں ہے اب دل سے
ہم بھی نالے کو نم نہیں کرتے

جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں
تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے


شام کو میری سر خوشی ہے شراب

جہل واعظ کا اُس کو راس آئے
صاحبو! میری آگہی ہے شراب

رَنگ رَس ہے میری رگوں میں رواں
بخدا میری زندگی ہے شراب

ناز ہے اپنی دلبری پہ مجھے
میرا دل ، میری دلبری ہے شراب

ہے غنیمت جو ہوش میں نہیں میں
شیخ! میری بے حسی ہے شراب

حِس جو ہوتی تو جانے کیا کرتا
مفتیو! میری بےحسی ہے شراب




وہ بچھڑا اور دھیان میں اس کے سو موسم ایجاد ہوئے

ناموری کی بات دگر ہے ورنہ یارو سوچو تو
گلگوں اب تک کتنے تیشے بے خونِ فرہاد ہوئے

لائیں کہاں سے بول رسیلے ہونٹوں کی ناداری میں
سمجھو ایک زمانہ گزرا بوسوں کی امداد ہوئے

تم میری اک خود مستی ہو میں ہوں تمہاری خود بینی
رشتے میں اس عشق کے ہم تم دونوں بے بنیاد ہوئے

میرا کیا اک موجِ ہوا ہوں پر یوں ہے اے غنچہ دہن
تُو نے دل کا باغ جو چھوڑا غنچے بے استاد ہوئے

عشق محلے میں اب یارو کیا کوئی معشوق نہیں
کتنے قاتل موسم گزرے شور ہوئے فریاد ہوئے

ہم نے دل کو مار رکھا ہے اور جتاتے پھرتے ہیں
ہم دل زخمی مژگاں خونیں ہم نہ ہوئے جلاد ہوئے

برق کیا ہے عکسِ بدن نے تیرے ہمیں اے تنگ قبا
تیرے بدن پر جتنے تِل ہیں سارے ہم کو یاد ہوئے

تُو نے کبھی سوچا تو ہو گا۔۔سوچا بھی اے مست ادا
تیری ادا کی آبادی پر کتنے گھر برباد ہوئے

جو کچھ بھی رودادِ سخن تھی ہونٹوں کی دُوری سے تھی
جب ہونٹوں سے ہونٹ ملے تو یکدم بے رُوداد ہوئے

خاک نشینوں سے کوچے کے کیا کیا نخوت کرتے ہیں
جاناں جان! ترے درباں تو فرعون و شدّاد ہوئے

شہروں میں ہی خاک اُڑا لو شور مچا لو بے حالو
جن دَشتوں کی سوچ رہے ہو وہ کب کے برباد ہوئے

سمتوں میں بکھری وہ خلوت۔۔وہ دل کی رنگ آبادی
یعنی وہ جو بام و دَر تھے یکسر گرد و باد ہوئے

تُو نے رندوں کا حق مارا مے خانے میں رات گئے
شیخ!! کھرے سیّد ہیں ہم تو ہم نے سُنا ناشاد ہوئے


بیقراری قرار ہے ، اماں ہاں

ایزدِ یزداں ہے تیرا انداز
اہرمن دل فگار ہے ، اماں ہاں

میرے آغوش میں جو ہے اُس کا
دَم بہ دَم انتظار ہے ، اماں ہاں

ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق
وہی اِک اپنا یار ہے ، اماں ہاں

یار زردی ہے رنگ پر اپنے
سو خزاں تو بہار ہے ، اماں ہاں

لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ
ایک آشوبِ کار ہے ، اماں ہاں

سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ
سب پہ شہوت سوار ہے ، اماں ہاں

اب تو انساں کے معجزے ہیں عام
اور انسان خوار ہے ، اماں ہاں

ایک ہی بار بار ہے ، اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے ، اماں ہاں

ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی
نظم ایک انتشار ہے ، اماں ہاں

ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس
جو بھے خود شکار ہے ، اماں ہاں

وہ جو ہے جو *کہیں* نہیں اس کا
سب کے سینوں پہ بار ہے ، اماں ہاں

اپنی بے روزگاریِ جاوید
اک عجب روزگار ہے ، اماں ہاں

شب خرابات میں تھا حشر بپا
کہ سخن ہرزہ کار ہے ، اماں ہاں

کیا کہوں فاصلے کے بارے میں
رہگزر ، رہگزر ہے ، اماں ہاں

بھُولے بھُولے سے ہیں وہ عارض و لب
یاد اب یادگار ہے ، اماں ہاں



کہ اُن کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں

نہیں ترکِ محبت پر وہ راضی
قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں

یقیں کا راستہ طے کرنے والے
بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں

یہ مت بھُولو کہ یہ لمحات ہم کو
بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں

تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں

تمہیں چاہیں گے جب چھِن جاؤ گی تو
ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں

کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے
ہم اپنے عیب خود گِنوا رہے ہیں

وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں
مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں


دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا
دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں

تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں

یہ جذبہ عشق ہے یا جذبۂ رحم
ترے آنسو مجھے رُلوا رہے ہیں

عجب کچھ ربط ہے تم سے تم کو
ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں

وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی
مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں



اب میں لبِ زخمِ بے گِلہ ہوں

میں ہمسفروں کی گرد کے بیچ
اک خود سفری کا قافلہ ہوں

خوشبو کے بدن میں تیرا ملبوس
دم لے کہ ابھی نہیں سِلا ہوں میں

میں نشۂ ذات میں نہتا
احباب سے اپنے آ مِلا ہوں

میں صر صرِ لفظ میں ہوں معنی
پس اپنی جگہ سے کب ہِلا ہوں









خیرہ سرانہ شور مچائیں خیرہ سرانہ رقص کریں

فن تو حسابِ تنہائی شرط بَھلا کِس شے کی ہے
یعنی اُٹھیں اور بے خلخال و طبل و ترانہ رقص کریں

داد سے جب مطلب ہی نہیں تو عذر بَھلا کس بات کا ہے
ہم بھی بزمِ بے بصراں میں بے بصرانہ رقص کریں

ہم پہ ہنر کے قدر شناساں ناز کناں ہیں یعنی ہم
سازِ شکستِ دل کی صدا پر عشوہ گرانہ رقص کریں

تختۂ گُل ہو عذر انگیز آبلہ پائی اپنے لیے
ہاں سرِ نشتر ہا ز کرانہ تا بہ کرانہ رقص کریں

مرضیِ مولا از ہمہ اولیٰ شوق ہمارا مولا ہے
ہم وہ نہیں جو بزم طرب میں پیشہ ورانہ رقص کریں

بر سر شور و بر سرِ سورش بر سرِ شبخوں بر سرِ خوں
چل کہ حصارِ فتنہ گراں میں فتنہ گرانہ رقص کریں

کوئی نہیں جو آ ٹکرائے سب چوراہے خالی ہیں
چل کہ سرِ بازارِ تباہی بے خطرانہ رقص کریں

بعدِ ہنر آموزی ہم کو تھا پندِ استاد کہ ہم
با ہنرانہ رقص میں آئیں بے ہنرانہ رقص کریں

اپنے بدن پر اپنے خوں میں غیر کا خوں بھی شامل ہو
بارگہِ پرویز میں چل کر تیشہ ورانہ رقص کریں



دل سے اب رسم و راہ کی جائے
لب سے کم ہی نباہ کی جائے

گفتگو میں ضرر ہے معنی کا
گفتگو گاہ گاہ کی جائے

ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
اپنی حالت تباہ کی جائے

ہوس انگیز ہوں بدن جن کے
اُن میں سب سے نباہ کی جائے

اپنے دل کی پناہ میں آ کر
زندگی بے پناہ کی جائے

ذات اپنی گواہ کی جائے
بند آنکھوں نگاہ کی جائے

ہم تو بس اپنی چاہ میں ہیں مگن
کچھ تو اس کی بھی چاہ کی جائے

ایک ناٹک ہے زندگی جس میں
آہ کی جائے، واہ کی جائے

دل! ہے اس میں ترا بَھلا کہ تری
مملکت بے سپاہ کی جائے

ملکہ جو بھی اپنے دل کی نہ ہو
جونؔ ! وہ بے کلاہ کی جائے




ہاں میاں داستانیاں تھے ہم

ہم سُنے اور سُنائے جاتے تھے
رات بھرکی کہانیاں تھے ہم

جانے ہم کِس کی بُود کا تھے ثبوت
جانے کِس کی نشانیاں تھے ہم

چھوڑتے کیوں نہ ہم زمیں اپنی
آخرش آسمانیاں تھے ہم

ذرہ بھر بھی نہ تھی نمود اپنی
اور پھر بھی جہانیاں تھے ہم

ہم نہ تھے ایک آن کے بھی مگر
جاوداں، جاودانیاں تھے ہم

روز اِک رَن تھا تیر و ترکش بِن
تھے کمیں اور کمانیاں تھے ہم

ارغوانی تھا وہ پیالۂ ناف
ہم جو تھے ارغوانیاں تھے ہم

نار پستان تھی وہ قتّالہ
اور ہوس درمیانیاں تھے ہم

ناگہاں تھی اک آنِ آن کہ تھی
ہم جو تھے ناگہانیاں تھے ہم




جو کچھ ہے یہاں آگ لگانے کے لیے ہے

اک بات ہی کہنی ہے مجھے تجھ سے، بس اک بات
اس شہر میں تُو صرف گنوانے کے لیے ہے

ہر شخص مری ذات سے جانے کے لیے تھا
تُو بھی تو مری ذات سے جانے کے لیے ہے

جو رنگ ہیں سہہ لے انہیں جو رنگ ہیں سہہ لے
یاں جو بھی ہنر ہے وہ کمانے کے لیے ہے

بودش جو ہے وہ ایک تماشہ ہے گماں کا
ہے جو بھی حقیقت وہ فسانے کے لیے ہے

ہنسنے سے کبھی خوش نہیں ہوتا ہے میرا دل
یاں مجھ کو ہنسانا بھی رُلانے کے لیے ہے

قاتل کو مرے مجھ سے نہیں ہے کوئی پَرخاش
قاتل تو مرا رنگ جمانے کے لیے ہے



یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے

سخن میرا اداسی ہے سرِ شام
جو خاموشی پہ طاری ہو گئی ہے

بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر
زمانے بھر میں خواری ہو گئی ہے

وہ نازک لب ہے اب جانے ہی والا
مری آواز بھاری ہو گئی ہے

دل اب دنیا پہ لعنت کر کہ اس کی
بہت خدمت گزاری ہو گئی ہے

یقیں معذور ہے اب اور گماں بھی
بڑی بے روزگاری ہو گئی ہے

وہ اک بادِ شمالی رنگ جو تھی
شمیم اس کی سواری ہو گئی ہے



تمہارے بعد بھی میں نے کئی کو چھوڑ دیا

ہوں جو بھی جان کی جاں وہ گمان ہوتے ہیں
سبھی تھے جان کی کی جاں اور سبھی کو چھوڑ دیا

شعور ایک شعورِ فریب ہے سو تو ہے
غرض کہ آگہی، ناآگہی کو چھوڑ دیا

خیال و خواب کی اندیشگی کے سُکھ جھیلے
خیال و خواب کی اندیشگی کو چھوڑ دیا
*
مہک سے اپنی گَلِ تازہ مست رہتا ہے
وہ رنگِ رُخ ہے کہ خود غازہ مست رہتا ہے

نگاہ سے کبھی گزرا نہیں وہ مست انداز
مگر خیال سے، اندازہ مست رہتا ہے

کہاں سے ہے رَسدِ نشہ، اس کی خلوت میں
کہ رنگ مست کا اندازہ مست رہتا ہے

یہاں کبھی کوئی آیا نہیں مگر سرِ شام
بس اک گمان سے دروازہ مست رہتا ہے

مجھے خیال کی مستی میں کس کا اندازہ
خدا نہیں جو باندازہ مست رہتا ہے



پِیا جی کی سواری جا رہی ہے

شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے

فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں
مری حالت سُدھاری جا رہی ہے

جو اِن روزوں مرا غم ہے وہ یہ ہے
کہ غم سے بُردباری جا رہی ہے

ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے

میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہے
وہ کیا شہ ہے جو ہاری جا رہی ہے

دل اُس کے رُو برو ہے اور گُم صُم
کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے

وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ
میاں عزت ہماری جا رہی ہے


ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ
مری فریاد ماری جا رہی ہے

وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رُخصت
میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے

دریغا ! تیری نزدیکی میاں جان
تری دوری پہ واری جا رہی ہے

بہت بدحال ہیں بستی ترے لوگ
تو پھر تُو کیوں سنواری جا رہی ہے

تری مرہم نگاہی اے مسیحا!
خراشِ دل پہ واری جا رہی ہے

خرابے میں عجب تھا شور برپا
دلوں سے انتظاری جا رہی ہے



بھُولنے پر اس کو جب آیا تو پہچانا بھی تھا

جانیے کس شوق میں رشتے بچھڑ کر رہ گئے
کام تو کوئی نہیں تھا پر ہمیں جانا بھی تھا

اجنبی سا ایک موسم ایک بے موسم سی شام
جب اُسے آنا نہیں تھا جب اُسے آنا بھی تھا

جانیے کیوں دل کی وحشت درمیاں میں آ گئی
بس یونہی ہم کو بہکنا بھی تھا بہکانا بھی تھا

اک مہکتا سا وہ لمحہ تھا کہ جیسے اک خیال
اک زمانے تک اسی لمحے کو تڑپانا بھی تھا





دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے

ہے کچھ ایسا کہ اس کی جلوت میں
ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے

جس کے آغوش کا ہوں دیوانہ
اس کے آغوش ہی سے خطرہ ہے

یاد کی دھوپ تو ہے روز کی بات
ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے

ہے عجب کچھ معاملہ درپیش
عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

شہر غدار جان لے کہ تجھے
ایک امروہوی سے خطرہ ہے

ہے عجب طورِ حالتِ گریہ
کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے

حال خوش لکھنو کا دلّی کا
بس انہیں مصحفی سے خطرہ ہے

آسمانوں میں ہے خدا تنہا
اور ہر آدمی سے خطرہ ہے

میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے
تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے

آج بھی اے کنارِ بان مجھے
تیری اک سانولی سے خطرہ ہے

ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں
اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے

جونؔ ہی تو ہے جونؔ کے درپے
*میر* کو *میر* ہی سے خطرہ ہے

اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے


جانے ہم خود میں کہ نا خود میں رہا کرتے ہیں

اب تم شہر کے آداب سمجھ لو جانی
جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں

جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے
جہل کا عیش جو ہے وہ علما کرتے ہیں

لمحے لمحے میں جیو جان اگر جینا ہے
یعنی ہم حرصِ بقا کو بھی فنا کرتے ہیں

جانے اس کوچۂ حالت کا ہے کیا حال کہ ہم
اپنے حجرے سے بہ مشکل ہی اُٹھا کرتے ہیں

میں جو کچھ بھی نہیں کرتا ہوں یہ ہے میرا سوال
اور سب لوگ جو کرتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں

اب یہ ہے حالتِ احوال کہ اک یاد سے ہم
شام ہوتی ہے تو بس رُوٹھ لیا کرتے ہیں

جس کو برباد کیا اس کے فدا کاروں نے
ہم اب اس شہر کی رُوداد سنا کرتے ہیں


شام ہو یا کہ سحر اب خس و خاشاک کو ہم
نذرِ پُر مایگیِ جیبِ صبا کرتے ہیں

جن کو مُفتی سے کدورت ہو نہ ساقی سے گِلہ
وہی خوش وقت مری جان رہا کرتے ہیں

ایک پہنائے عبث ہے جسے عالم کہیے
ہو کوئی اس کا خدا ہم تو دعا کرتے ہیں


پھر بھی محبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی

جس دن اُس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں
جس دن اُس کا خط آیا ہے اُس دن بھی ویرانی تھی

جب اُس نے مجھ سے کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں
تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی

جس دن وہ ملنے آئی ہے اس دن کی رُوداد یہ ہے
اس کا بلاؤز نارنجی تھا اس کی ساری دھانی تھی

اُلجھن سی ہونے لگتی تھی مجھ کو اکثر اور وہ یوں
میرا مزاجِ عشق تھا شہری اس کی وفا دہقانی تھی

اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی

نام پہ ہم قربان تھے اس کے لیکن پھر یہ طور ہوا
اس کو دیکھ کے رُک جانا بھی سب سے بڑی قربانی تھی

مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے
اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی

عشق کی حالت کچھ بھی نہیں تھی بات بڑھانے کا فن تھا
لمحے لافانی ٹھیرے تھے قطروں کی طغیانی تھی

جس کو خود میں نے بھی اپنی روح کا عرفان سمجھا تھا
وہ تو شاید میرے پیاسے ہونٹوں کی شیطانی تھی

تھا دربارِ کلاں بھی اس کا نوبت خانہ اس کا تھا
تھی میرے دل کی جو رانی امروہے کی رانی تھی



ہوئے کتنے دن اس کوچے سے آئی، میں نہیں گِنتا

بھلا خود میں کب اپنا ہوں، سو پھر اپنا پرایا کیا
ہیں کتنے اپنے اور کتنے پرائے میں نہیں گِنتا

لبوں کے بیچ تھا ہر سانس اک گنتی بچھڑنے کی
مرے وہ لاکھ بوسے لے کے جائے میں نہیں گِنتا

وہ میری ذات کی بستی جو تھی میں اب وہاں کب ہوں
وہاں آباد تھے کِس کِس کے سائے میں نہیں گِنتا


بھلا یہ غم میں بھولوں گا کہ غم بھی بھول جاتے ہیں
مرے لمحوں نے کتنے غم بھُلائے میں نہیں گِنتا

تُو جن یادوں کی خوشبو لے گئی تھی اے صبا مجھ سے
انہیں تُو موج اندر موج لائے میں نہیں گِنتا

وہ سارے رشتہ ہائے جاں کے تازہ تھے جو اس پل تک
تھے سب باشندۂ کہنہ سرائے، میں نہیں گِنتا



جی نہیں لگ رہا کئی دن سے

بے شمیمِ ملال و حیراں ہے
خیمہ گاہِ صبا کئی دن سے

دل محلے کی اس گلی میں بَھلا
کیوں نہیں غُل مچا کئی دن سے

وہ جو خوشبو ہے اس کے قاصد کو
میں نہیں مِل سکا کئی دن سے

اس سے بھی اور اپنے آپ سے بھی
ہم ہیں بےواسطہ کئی دن سے



یاد بھی طور ہے بھُلانے کا

پسند آیا ہمیں بہت پیشہ
خود ہی اپنے گھروں کو ڈھانے کا

کاش ہم کو بھی ہو نصیب کبھی
عیش دفتر میں گنگنانے کا

آسمانِ خموشیِ جاوید
میں بھی اب لب نہیں ہلانے کا

جان! کیا اب ترا پیالۂ ناف
نشہ مجھ کو نہیں پِلانے کا

شوق ہے ِاس دل درندہ کو
آپ کے ہونٹ کاٹ کھانے کا

اتنا نادم ہوا ہوں خود سے کہ میں
اب نہیں خود کو آزمانے کا

کیا کہوں جان کو بچانے میں
جونؔ خطرہ ہے جان جانے کا

یہ جہاں *جون*! اک جہنم ہے
یاں خدا بھے نہیں ہے آنے کا

زندگی ایک فن ہے لمحوں کا
اپنے انداز سے گنوانے کا



میں کام نہ کر کے تھک گیا ہوں

اُوپر سے اُتر کے تازہ دم تھا
نیچے سے اُتر کے تھک گیا ہوں

اب تم بھی تو جی کے تھک رہے ہو
اب میں بھی تو مر کے تھک گیا ہوں

میں یعنی ازل کا آرمیدہ
لمحوں میں بِکھر کے تھک گیا ہوں

اب جان کا میری جسم شَل ہے
میں خود سے ہی ڈر کے تھک گیا ہوں




تجھ کو تڑپانے کی ہیں تیاریاں

کر رہے ہیں یاد اسے ہم روز و شب
ہیں بھُلانے کی اسے تیاریاں

تھا کبھی میں اک ہنسی اُن کے لیے
رو رہی ہیں اب مجھے مت ماریاں

جھوٹ سچ کے کھیل میں ہلکان ہیں
خوب ہیں یہ لڑکیاں بےچاریاں

شعر تو کیا بات کہہ سکتے نہیں
جو بھی نوکر جونؔ ہیں سرکاریاں

جو میاں جاتے ہیں دفتر وقت پر
اُن سے ہیں اپنی جُدا دشواریاں

ہم بھلا آئین اور قانون کی
کب تلک سہتے رہیں غداریاں

سُن رکھو اے شہر دارو ! خون کی
ہونے ہی والی ہیں ندیاں جاریاں


ہیں سبھی سے جن کی گہری یاریاں
سُن میاں ہوتی ہیں ان کی خواریاں

ہے خوشی عیاروں کا اک ثمر
غم کی بھی اپنی ہیں کچھ عیاریاں

ذرّے ذرّے پر نہ جانے کس لیے
ہر نفس ہیں کہکشائیں طاریاں

اس نے دل دھاگے ہیں ڈالے پاؤں میں
یہ تو زنجیریں ہیں بےحد بھاریاں

تم کو ہے آداب کا برص و جزام
ہیں ہماری اور ہی بیماریاں

خواب ہائے جاودانی پر مرے
چل رہی ہیں روشنی کی آریاں

ہیں یہ سندھی اور مہاجر ہڈ حرام
کیوں نہیں یہ بیچتے ترکاریاں

یار! سوچو تو عجب سی بات ہے
اُس کے پہلو میں مری قلقاریاں

ختم ہے بس جونؔ پر اُردو غزل
اس نے کی ہیں خون کی گل کاریاں



کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو

گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی لیکن
جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو

یہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیں
کہ جو بھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو

تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے
تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو

سرودِ آتشِ زرین صحنِ خاموشی
وہ داغ ہے جسے ہر شب جلانے لگتے ہو

سنا ہے کاہکشاؤں میں روز و شب ہی نہیں
تو پھر تم اپنی زباں کیوں جلانے لگتے ہو



اور ہاں یکبارگی کی جائے گی

کر گئے ہیں کوچ اس کوچے کے لوگ
اب تو بس آوارگی کی جائے گی

تم سراپا حُسن ہو، نیکی ہو تم
یعنی اب تم سے بدی کی جائے گی

یار اس دن کو کبھی آنا نہیں
پھول جس دن وہ کلی کی جائے گی

اس سے مِل کر بے طرح روؤں گا میں
ایک طرفہ تر خوشی کی جائے گی

ہے رسائی اس تلک دل کا زیاں
اب تو یاراں نارسی کی جائے گی

آج ہم کو اس سے ملنا ہی نہیں
آج کی بات آج ہی کی جائے گی

ہے مجھے احساس کم کرنا ہلاک
یعنی اب تو بے حسی کی جائے گی


اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے

ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی
جام ہوں گے چھلک گئے ہوں گے

وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہو گا
ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہوں گے

شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

کتنے ہی لوگ حرص شہرت میں
دار پر خود لٹک گئے ہوں گے

شکر ہے اس نگاہ کم کا میاں
پہلے ہی ہم کھٹک گئے ہوں گے

ہم تو اپنی تلاش میں اکثر
از سما تا سمک گئے ہوں گے

اس کا لشکر جہاں تہاں یعنی
ہم بھی بس بے کمک گئے ہوں گے

جونؔ ، اللہ اور یہ عالم
بیچ میں ہم اٹک گئے ہوں گے




دل جو اک جائے تھی دنیا ہوئی آباد اس میں
پہلے سنتے ہیں کہ رہتی تھی کوئی یاد اس میں

وہ جو تھا اپنا گمان آج بہت یاد آیا
تھی عجب راحتِ آزادیِ ایجاد اس میں

ایک ہی تو وہ مہم تھی جسے سر کرنا تھا
مجھے حاصل نہ کسی کی ہوئی امداد اس میں

ایک خوشبو میں رہی مجھ کو تلاشِ خدوخال
رنگ فصیلیں مری یارو ہوئیں برباد اس میں

باغِ جاں سے تُو کبھی رات گئے گزرا ہے
کہتے ہیں رات میں کھیلیں ہیں پری زاد اِس میں

دل محلے میں عجب ایک قفس تھا یارو
صید کو چھوڑ کے رہنے لگا صیاد اس میں



پھر وہی رنگ بہ صد طور جلائے بھی گئے

انہیں شہروں کو شتابی سے لپیٹا بھی گیا
جو عجب شوق فراخی سے بچھائے بھی گئے

بزمِ شوق کا کسی کی کہیں کیا حال جہاں
دل جلائے بھی گئے اور بجھائے بھی گئے

پشت مٹی سے لگی جس میں ہماری لوگو!
اُسی دنگل میں ہمیں داؤ سِکھائے بھی گئے

یادِ ایام کہ اک محفلِ جاں تھی کہ جہاں
ہاتھ کھینچے بھی گئے اور مِلائے بھی گئے

ہم کہ جس شہر میں تھے سوگ نشینِ احوال
روز اس شہر میں ہم دھوم مچائے بھی گئے

یاد مت رکھیو رُوداد ہماری ہرگز
ہم تھے وہ تاج محل جونؔ جو ڈھائے بھی گئے





یہ ہنر کِس کو دکھایا میں نے

وہ جو تھا اس کو مِلا کیا مجھ سے
اس کو تو خواب ہی سمجھا میں نے

دل جلانا کوئی حاصل تو نہ تھا
آخرِ کار کیا کیا میں نے

دیکھ کر اس کو ہُوا مست ایسا
پھر کبھی اسکو نہ دیکھا میں نے

شوقِ منزل تھا بُلاتا مجھ کو
راستہ تک نہیں ڈھونڈا میں نے

اک پلک تجھ سے گزر کر ، تا  عمر
خود ترا وقت گزارا میں نے

اب کھڑا سوچ رہا ہوں لوگو!
کیوں کیا تم کو اِکھٹا میں نے

کوئی بھی کیوں مجھ سے شرمندہ ہوا
میں ہوں اپنے طور کا ہارا ہوا


دل میں ہے میرے کئی چہروں کی یاد
جانیے میں کِس سے ہوں رُوٹھا ہوا

شہر میں آیا ہوں اپنے آج شام
اک سرائے میں ہوں میں ٹھیرا ہوا

بے تعلق ہوں اب اپنے دل سے بھی
میں عجب عالم میں بے دنیا ہوا

ہے عجب اک تیرگی در تیرگی
کہکشانوں میں ہوں میں لپٹا ہوا

اب ہے میرا کربِ ذات آساں بہت
اب تو میں اس کو بھی ہوں بھُولا ہوا

مال بازارِ زمیں کا تھا میں *جون*
آسمانوں میں میرا سودا ہوا



بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے

کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم
وہ بے خبر جو تیری زندگی میں آئے تھے

گلی میں اپنی گِلہ کر ہمارے آنے کا
کہ ہم خوشی میں نہیں سرخوشی میں آئے تھے

کہاں چلے گئے اے فصلِ رنگ و بُو وہ لوگ
جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے

نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن
وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے

تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا
ہزار حیف ہم اپنی کمی میں آئے تھے


میں دل کی شراب پی رہا ہوں
پہلو کا عذاب پی رہا ہوں

میں اپنے خرابۂ عبث میں
بے طرح خراب پی رہا ہوں

ہے میرا حساب بے حسابی
دریا میں سراب پی رہا ہوں

ہیں سوختہ میرے چشم و مژگاں
میں شعلۂ خواب پی رہا ہوں

دانتوں میں ہے میرے شہ رگ جاں
میں خونِ شباب پی رہا ہوں

میں اپنے جگر کا خون کر کے
اے یار شتاب پی رہا ہوں

میں شعلۂ لب سے کر کے سیّال
طاؤس و رباب پی رہا ہوں

وہ لب ہیں بَلا کے زہر آگیں
میں جن کا لعاب پی رہا ہوں



ہم بھی اپنے سامنے سے ہٹ گئے

رنگِ سرشاری کی تھی جِن سے رَسَد
دل کی ان فصلوں کے جنگل کٹ گئے

اک چراغاں ہے حرم میں دیر میں
جشن اس کا ہے دل و جاں بٹ گئے

شہرِ دل اور شہرِ دنیا الوداع
ہم تو دونوں کی طرف سے کٹ گئے

ہو گیا سکتہ خرد مندوں کو جب
مات کھاتے ہی دوانے ڈٹ گئے

چاند سورج کے عالم اور واپسی
وہ ہوا ماتم کہ سینے پھٹ گئے

کیا بتائیں کتنے شرمندہ ہیں ہم
تجھ سے مِل کر اور بھی ہم گھٹ گئے


کیسے دنیا جہان چھوڑ گئے

اے زمینِ وصال لوگ ترے
ہجر کا آسمان چھوڑ گئے

تیرے کوچے کے رُخصتی جاناں
ساری دنیا کا دھیان چھوڑ گئے

روزِ میداں وہ تیرے تیر انداز
تیر لے کر کمان چھوڑ گئے

جونؔ لالچ میں آن بان کی یار
اپنی سب آن بان چھوڑ گئے

آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا

خود سے مایوس ہو کر بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہوگا

شام تیرے دیار میں آخر
کوئی تو اپنے گھر گیا ہوگا

مرہمِ ہجر تھا عجب اکسیر
اب تو ہر زخم بھر گیا ہوگا


اک دم سے بھُولنا اسے پھر ابتدا سے ہے

یہ شام جانے کتنے ہی رشتوں کی شام ہو
اک حُزن دل میں نکہتِ موجِ صبا سے ہے

دستِ شجر کی تحفہ رسانی ہے تا بہ دل
اس دم ہے جو بھی دل میں مرے وہ ہوا سے ہے

جیسے کوئی چلا بھی گیا ہو اور آئے بھی
احساس مجھ کو کچھ یہی ہوتا فضا سے ہے

دل کی سہولتیں ہیں عجب ، مشکلیں عجب
ناآشنائی سی عجب اک آشنا سے ہے

اس میں کوئی گِلہ ہی روا ہے نہ گفتگو
جو بھی یہاں کسی کا سخن ہے وہ جا سے ہے

آئے وہ کِس ہنر سے لبوں پر کہ مجھ میں *جون*
اک خامشی ہے جو مرے شورِ نوا سے ہے



اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو

جو بھی ہے اس کو گنوا بیٹھا ہے
میں بھلا کیسے گنوا دوں اس کو

تجھ گماں پر جو عمارت کی تھی
سوچتا ہوں کہ میں ڈھا دوں اس ک

جسم میں آگ لگا دوں اس کے
اور پھر خود ہی بجھا دوں اس کو

ہجر کی نظر تو دینی ہے اسے
سوچتا ہوں کہ بھُلا دوں اس کو

جو نہیں ہے مرے دل کی دنیا
کیوں نہ میں جونؔ مِٹا دوں اس کو


شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے

آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام
صرف شراب چاہیے ، صرف شراب چاہیے

کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے
کوئی سوال چاہیے کوئی جواب چاہیے

اس سے نبھے گا رشتۂ سود و زیاں بھی کیا بھلا
میں ہوں بَلا کا بدحساب اس کو حساب چاہیے

امن و امانِ شہرِ دل خواب و خیال ہے ابھی
یعنی کہ شہرِ دل کا حال اور خراب چاہیے

جانِ گماں ہمیں تو تم صرف گمان میں رکھو
تشنہ لبی کو ہر نفس کوئی سراب چاہیے

کھُل تو گیا ہے دل میں ایک مکتبِ حسرت و اُمید
جونؔ اب اس کے واسطے کوئی نصاب چاہیے


***
ٹائپمگ: مختلف فورموں کے ارکان، پروف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید