اداس ہونے کے دن نہیں



نوشی گیلانی








فہرست




انتساب... 6
گلابی روشنیوں کی بشارت... 7
بہ احتیاطِ عقیدت بہ چشمِ تر کہنا... 10
زمانے والوں سے چھُپ کے رونے کے دن نہیں ہیں... 11
اِک پشیمان سی حسرت سے مُجھے سوچتا ہے... 12
دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے... 13
کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے... 14
ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبح وصَال میں رکھے.... 15
کون روک سکتا ہے... 16
بند ہوتی کتابوں میں اُڑتی ہوئی تتلیاں ڈال دیں... 18
بس اپنے ساتھ رہنا چاہتی ہوں.. 28
نا دیدہ رفاقت میں.... 29
اتنے سچّے کیوں ہوتے ہیں... 32
یہی نہیں کوئی طوفاں مِری تلاش میں ہے... 33
تجھ سے اب اور محّبت نہیں کی جا سکتی.... 34
دل تھا کہ خُوش خیال تجھے دیکھ کر ہُوا 35
ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے... 36
چُپ نہ رہتے بیان ہو جاتے... 37
انحراف... 38
شامِ تنہائی میں.... 39
جس طرح ماں کی دُعا ہوتی ہے... 40
مُجھے موت دے کہ حیات دے... 41







پروین شاکر کے نام





پیش لفظ


یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہوا میری سہیلی تھی اور میرے رخساروں پر اپنے نرم ہاتھ رکھ کر اسم آگہی یاد کراتی۔۔۔پھر زرد پھولوں کی بارش سے لے کر گلابی روشنیوں کی بشارت کا سارا سفر میں نے اسی کو پہلو داد رفاقت میں طے کیا۔

یہ اور بات ہے کہ اس سفر میں کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوا جیسے میرا دل لمبی پرواز سے تھکی ہاری چڑیا کی مانند دھڑک رہا ہے،پیشانی پر مشقت کے پسینے کے نادیدہ قطرے انگارے بن گئے ہیں،پروں سے طاقت پرواز روٹھ چکی ہے،آسمانوں پر اذن سفر کا نقارہ بھی گنگ ہے اور افق ہر ہجرتوں کی طرح سرک آندھی کا غبار ٹھہر گیا ہے۔۔۔اس پر تکان کیفیت کے باوجود بھی میں جستجوئے وصال ذات کی ایک شاخ بے نمو پر آن بیٹھی ،چند لمحوں کو سہی مگر ساری عمر گزار دینے کی خواہش سے لبریز۔

خواہش سے لبریز ایسے ہی موسم خوش خیال میں سرخروئی کا نشہ وارد ہوتا اور ایسا لگنے لگتا کہ جیسے آج عشق نے پتھر سے نمی مانگ لی،انا کے دریا کا بند ٹوٹ گیا اور محبت کی وادی کے تمام دکھ بہا کے لے گیا ،فلک بوس غرور زمین بو س ہو گیا۔پہاڑ سے آبشار پھوٹ پڑی،شبنم نے الاؤ کو مسخر کر لیا،ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ تیرہ و تار راتوں کو منور کر گیا۔خوشبو کا جھونکا محبوس جسموں اور دماغوں کو معطر کر گیا،پنچھی قفس میں پھڑپھڑا کر پرسکون ہو گیا،ایک کلی مسکرانے ،کی ابدی جزا پا گئی،ایک زخم شفیق پوروں کی جراحی سے شفا یاب  ہو گیا۔۔۔شاید یہ عالم جنوں تھا یا لمحہ ادراک جو بھی تھا میلے میں اکیلا کر دیتا تھا۔

میلے میں اکیلا تو عشق بھی کر دیتا ہے،اہل عشق۔۔۔ کہ جن کے سینوں کے اندر ہمہ وقت ایک صف ماتم بچھی ہوتی ہے،جہاں آرزوئیں آنکھوں میں آنسو لیے،بال بکھرائے،سینہ کوبی پہ مجبور بین کرتی نظر آتی ہیں اور پھر یہی آزردگی جب حروف و معنی اوڑھ لے تو شاعری کہلاتی ہے مکتب عشق کے صوفیوں کو خبر ہے کہ جو عشق میں دیانتدار نہیں وہ شاعری میں دیانتدار نہیں ۔

شاعری جو میرا یقین ہے کئی بار جی چاہتا ہے کہ یقین کی اس پوٹلی کو ہاتھ میں لے کر تنہائی کے جنگل میں جا نکلوں جہاں وحشی خوشبوؤں کا راج ہو۔۔۔ہتھیلیوں کی تقدیر بدلتی خوشبو۔۔آنکھوں کی روشنی بکھیرتی خوشبو۔۔۔۔سینوں کی محصور کرتی خوشبو۔۔۔ہونٹوں کی شعر کہتی خوشبو۔۔۔یہی خوشبو تو ہے  جو محسوسات کو پتھر کر دینے والی رزق کی دوڑ میں مگن اس لڑکی کے پیروں میں حرف و معنی کی جھانجھریں ڈال دیتی ہے جن کی چھن چھن اسے اس کے ہونے کا احساس دلاتی ہے اور روح مسکرا کر پکار اٹھتی ہے۔۔۔’’ ہیں‘‘

یہ جو ہماری روح ہے نا!یہ چاندی کے کٹورے کی مانند ہوتی ہے جس میں ذات سے باہر کے تعصبات کی ذرا سی بھی گرد ٹھہر جائے تو وجدان کا سپید میٹھا دودھ گدلا اور بے لذت ہو جاتا ہے۔

بے لذت تو زندگی بھی ہو جاتی ہے جب کہ کچھ طبقات اپنے اور خلق کے ذہن و بدن کے لئے ان دیکھی زنجیروں کا انتظام کرنے میں منہمک رہتے ہیں اور پھر آزادی کی قدرتی تنظیم و توانائی کے لطف کی فضا سے محروم ہوتے اور کرتے چلے جاتے ہیں۔

فضا تو وہ بھی کیسی دل میں اتر جانے والی ہوتی ہے جب سردیوں کی کسی گہری اداس شب میں سنہرے الاؤ کے گرد کوئی دعا جیسی صحرائی آواز محبت کے درد میں ڈوبی پر وقار سچائی کا اہتمام کر رہی ہوتی ہے۔۔۔تب آسمان پر کونجیں گواہی دیتی ہیں کہ انسان کی فطری سرکشی اس کے بدن سے ہجرت کر رہی ہے،انحراف اثبات میں بدل گئے ہیں،سر تسلیم خم ہو چکے ہیں،سجدے نیکیوں کی صورت جبین نیاز پر اتر رہے ہیں۔

اور سیئں خواجہ فرید کی کافی حرف حرف ثواب بنتی چلی جاتی ہے۔

میڈا عشق وہ توں میڈا یاروی توں

میڈا دین وی توں ایمان وی توں

میڈا جسم وی توں میڈی روح وی توں

میڈا قلب وی توں جندجان وی توں

میڈا ذکروی توں میڈا فکروی توں

میڈا ذوق وی توں وجدان وی تو

میڈی وحشت جوش جنوں وی توں

میڈا گریہ آہ وفغان وی توں

جے یار فرید قبول کرے

سرکار وی توں سلطان وی توں

نوشی گیلانی




بہ احتیاطِ عقیدت بہ چشمِ تر کہنا

صبا حضور سے حالِ دل و نظر کہنا!

حصارِ جبر میں ہوں اور یہاں سے بھی ہجرت

مَیں جانتی ہُوں کہ ممکن نہیں مگر، کہنا

میں خاک شہرِ مدینہ پہن کے جب نکلوں

تو مُجھ سے بڑھ کے کوئی ہو گا معتبر کہنا

یہ عرض کرنا کہ آقا مِری بھی سُن لیجے

بحبز  تمُھارے نہیں کوئی چارہ گر کہنا

مَیں اپنی پَلکوں سے لکھتی ہُوں حرفِ نامِ رسُول

مُجھے بھی ا گیا لکھنے کا اب  ہُنر کہنا

یہ کہنا اب تو ہمیں تابِ انتظار نہیں

کہ ہم کریں گے مدینے کا کب سفر کہنا






زمانے والوں سے چھُپ کے رونے کے دن نہیں ہیں

اُسے یہ کہنا  ہیں

میں جان سکتی  ہُوں وَصل میں اصل بھید کیا ہے

مگر حقیقت شناس ہونے کے دن نہیں ہیں







اب وُہی شہر محبت سے مُجھے سوچتا ہے

میں تو محدُود سے لمحوں میں مِلی تھی اُس سے

پھر بھی وہ کِتنی وضاحت سے مُجھے سوچتا ہے

جِس نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کا ممکن ہونا

دُکھ میں ڈوُبی  ہُوئی حیرت سے مُجھے سوچتا ہے

میں تو مَر جاؤں اگر سوچتے لگ جاؤں اُسے

اور وہ کِتنی سہُولت سے مُجھے سوچتا ہے

گرچہ اب ترکِ مراسم کو بہت دیر ہُوئی

اب بھی وہ میری اجازت سے مُجھے سوچتا ہے

کِتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں

اِک نئے رُخ نئی صُورت سے مُجھے سوچتا ہے








پھر بھی خُوشبو کے ہاتھ پِیلے  ہُوئے

بد گُمانی کے سَرد موسم میں

میری گُڑیا کے ہاتھ نِیلے ہُوئے

جب زمیں کی زباں چٹخنے لگی

تب کہیں بارشوں کے حیلے ہُوئے

وقت نے خاک وہ اُڑائی ہے

شہر آباد تھے جو ٹِیلے ہُوئے

جب پرندوں کی سانس رُکنے لگی

تب ہواؤں کے کُچھ وسیلے ہُوئے

کوئی بارش تھی بد گُمانی کی

سارے کاغذ ہی دِل کے گَیلے ہُوئے






برف کے پگھلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

اُس نے ہنس کے دیکھا تو مُسکرا دیے ہم بھی

ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

ہجر کی تمازت سے وصَل کے الاؤ تک

لڑکیوں کے جلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

بات جیسی بے معنی بات اور کیا ہو گی

بات کے مُکرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

زعم کِتنا کرتے ہو اِک چراغ پر اپنے

اور ہَوا کے چلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

جب یقیں کی بانہوں پر شک کے پاؤں  پڑ جائیں

چوڑیاں بِکھرنے میں دیر کِتنی لگنی ہے






اچھّا مولا! تیری مرضی تو جس حال میں رکھے

کھیل یہ کیسا کھیل رہی ہے دل سے تیری محبّت

اِک پَل کی سرشاری دے اور دِنوں ملال میں رکھے

میں نے ساری خُوشبوئیں آنچل سے باندھ کے رکھیں

شاید ان کا ذِکر تُو اپنے کسی سوال میں رکھے

کِس سے تیرے آنے کی سرگوشی کو سُنتے ہی

میں نے کِتنے پھُول چُنے اور اپنی شال میں رکھے

مشکل بن کر ٹَوٹ پڑی ہے دِل پر یہ تنہائی

اب جانے یہ کب تک اس کو اپنے جال میں رکھے







لاکھ ضبطِ خواہش کے

بے شمار دعوے ہوں

اُس کو بھُول جانے کے

بے پنہ اِرادے ہوں

اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا

فیصلہ سُنانے کو

کتنے لفظ سوچے ہوں

دل کو اس کی آہٹ پر

برَملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے

پھر وفا کے  صحرا میں

اُس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی

خُوشبوؤں کو چھُونے کی

جستجو میں رہنے سے

رُوح تک پگھلنے سے

ننگے پاؤں چلنے سے

کون روک سکتا ہے

آنسوؤں کی بارش میں

چاہے دل کے ہاتھوں میں

ہجر کے مُسافر کے

پاؤں تک بھی چھُو آؤ

جِس کو لَوٹ جانا ہو

اس کو دُور جانے سے

راستہ بدلنے سے

دُور جا نکلنے سے

کون روک سکتا ہے




کس کی رسموں کی جلتی ہُوئی آگ میں لڑکیاں ڈال دیں

خوف کیسا ہے یہ نام اس کا کہیں زیر لب بھی نہیں

جس نے ہاتھوں میں میرے ہرے کانچ کی چُوڑیاں ڈال دیں

ہونٹ پیاسے رہے، حوصلے تھک گئے عُمر صحرا  ہوئی

ہم نے پانی کے دھوکے میں پھر ریت پر کشتیاں ڈال دیں

موسمِ ہجر کی کیسی ساعت ہے یہ دل بھی حیران ہے

میرے کانوں میں کس نے تری یاد کی بالیاں ڈال دیں








دِل نے کیوں سمجھوتہ کرنا سِیکھ لیا ہے






مِرے خدا مِرے دُکھ سے نکال دے اُس کو

وہ چُپ کھڑا ہے کئی دن سے تیری خاطر تو

کواڑ کھول دے اذنِ سوال دے اُس کو

عذاب بد نظری کا جِسے شعور نہ ہو

یہ میری آنکھیں، مِرے  خّد و خال دے اُس کو

یہ دیکھنا شب ہجراں کہ کِس کی دستک ہے

وصال رُت ہے اگر وہ تو ٹال دے اُس کو

وہ جس کا حرفِ دُعا روشنی ہے میرے لیے

میں بُجھ بھی جاؤں تو مولا اُجال دے اُس کو









کبھی خوشبو بھی وفا کرتی ہے

خیمۂ دل کے مقدّر کا یہاں

فیصلہ تیز ہَوا کرتی ہے

بے رُخی تیری،عنایت تیری

زخم دیتی ہے، دَوا کرتی ہے

تیری آہٹ مِری تنہائی کا

راستہ روک لیا کرتی ہے

روشنی تیرا حوالہ ٹھہرے

میری ہر سانس دُعا کرتی ہے

میری تنہائی سے خاموشی تری

شعر کہتی ہے، سُنا کرتی ہے








اب تو قسمت سے ہی کوئی دریا ہار کرے گا

سارا شہر ہی تاریکی پر یُوں خاموش رہا تو

کون چراغ جلانے کے پیدا آثار کرے گا

جب اُس کو کردار تُمھارے سچ کو زد میں آیا

لکھنے والا شہرِ کی کالی، ہر دیوار کرے گا

جانے کون سی دھُن میں تیرے شہر میں آ نکلے ہیں

دل تجھ سے ملنے کی خواہش اب سو بار کرے گا

دِل میں تیرا قیام تھا لیکن اَب  یہ  کِسے خبر تھی

دُکھ بھی اپنے ہونے پر اتِنا اصرار کرے گا








زندگی ایک نیا  طرزِ سخن چاہتی ہے

رُوح کے بے سرو سامانی سے باہر آ کر

شاعری اپنے لیے ایک بدن چاہتی ہے

ہر طرف کتنے ہی پھُولوں کی بہاریں ہیں یہاں

پر طبیعت  وُہی  خوشبوےُ وطن چاہتی ہے

سانس لینے کو بس اِک تازہ ہَوا کا جھونکا

زندگی وہ کہاں سرو و سمن چاہتی ہے

دُور جا کر در و دیوار کی رونق سے کہیں

ایک خاموش سا اُجڑا ہُوا بن چاہتی ہے





وصل رائیگانی ہے

اس کی درد آنکھوں میں

ہجر کی کہانی ہے

جیت جس کسی کی ہو

ہم نے ہار مانی ہے

چوڑیاں بکِھرنے کی

رسم یہ پُرانی ہے

عُمر کے جزیرے پر

غم کی حکمرانی ہے

مِل گیا تو  وحشت  کی

داستاں سناتی ہے

ہجر توں کے صحرا کی

دل نے خاک چھانی ہے








نہ گُفتگو کا کمال آہنگ

نہ بات کے بے مثال معنی

نہ خال و خد میں وہ جاذبیت

جو جسم و جاں کو اسیر کر لے

نہ مستقل کوئی عکس خواہش

مگر یہ کیا ہے

میں کس کی خاطر

وفا کے رستوں پہ لکھ رہی ہوں

مسافرت کی نئی کہانی







مَیں بد دُعا تو نہیں دے رہی ہُوں اُس کو مگر

دُعا یہی ہے اُسے مُجھ سا اب کوئی نہ مِلے





بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں

ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے

سارے درد چُھپا لیتی ہیں

روتے روتے ہنس پڑتی ہیں

ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رو لیتی ہیں

خوشی کی خواہش کرتے کرتے

خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں

سو حصّوں میں بٹ جاتی ہیں

گھر کے دروازے پر بیٹھی

اُمیدوں کے ریشم بنتے ….ساری عُمر گنوا دیتی ہیں

میں جو گئے دنوں میں

ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی

اب خود بھی تو

عُمر کی گرتی دیواروں سے ٹیک لگا ئے

فصل خوشی کی بوتی ہوں

اور خوش فہمی کا ٹ رہی ہوں

جانے کیسی رسم ہے یہ بھی

ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں

اپنا مقدّر دے دیتی ہے








میں اب تجھ سے مُکرنا چاہتی ہوں

میں اپنی عُمر کے سارے اثاثے

نئے ڈھب سے برتنا چاہتی ہوں

یہ دل پھر تیری خواہش کر رہا ہے

مگر میں دُکھ سے بچنا چاہتی ہوں

کوئی حرفِ وفا ناں حرفِ سادہ

میں خاموشی کو سُننا چاہتی ہوں

میں بچپن کے کِسی لمحے میں رُک کر

کوئی جُگنو پکڑنا چاہتی ہوں









کُچھ بھی تو نہیں ویسا

جیسا تجھے سوچا تھا

جتنا تجھے چاہا تھا

سوچا تھا تیرے لب پر

کُچھ حرف دُعاؤں کے

کُچھ پھُول وفاؤں کے

مہکیں گی مِری خاطر

کُچھ بھی تو نہیں ویسا

جیسا تجھے سوچا تھا

محسوس یہ ہوتا ہے

دُکھ جھیلے تھے جو اَب تک

بے نام مسافت میں

لکھنے کی محبّت میں

پڑھنے کی ضرورت میں

بے سُور ریاضت تھی

بے فیض عبادت تھی

جو خواب بھی دیکھے تھے

ان جاگتی آنکھوں نے

سب خام خیالی تھی

پھر بھی تجھے پانے کی

دل کسی گوشے میں

خواہش تو بچا لی تھی

لیکن تجھے پاکر بھی

اور خود کو گنوا کر بھی

اس حبس کے موسم کی کھڑی سے ہوا آئی

نہ پھول سے خُوشبو کی کوئی بھی صدا آئی

اب نیند ہے آنکھوں میں

ناں دل میں وہ پہلی سی تازہ سخن آرائی

ناں لفظ مِرے نکلے

ناں حرف و معافی کی دانش مِرے کام آئی

نادیدہ رفاقت میں

جتنی بھی اذیت تھی

سب میرے ہی نام آئی

کچھ بھی تو نہیں ویسا جیسا تجھے سوچا تھا

جتنا تجھے چاہا تھا







سچّے اچھّے کیوں ہوتے ہیں








کہ موسمِ غمِ  جاناں مری تلاش میں ہے

وصال رُت ہے مگر دِل کو ایسا لگتا ہے

ستارۂ شب ہجراں مِری تلاش میں ہے

میں فیصلے کی گھڑی سے گزر چکی ہُوں مگر

کسی کا دیدۂ حیراں مِری تلاش میں ہے

یہ بے یقین سی آسودگی بتاتی ہے

کہ ایک قریۂ دِیراں مِری تلاش میں ہے

میں تیرِ گی میں محبّت کی اِک کہانی ہوں

موئی چراغ سا عنوان مری تلاش میں ہے

یہ کیسا خواب تھا دھڑکا سا لگ گیا دِل کو

کہ ایک شخص پریشاں مِری تلاش میں ہے








خُود کو اِتنی بھی اذیت نہیں دی جا سکتی

جانتے ہیں کہ یقین ٹُوٹ رہا ہے دل پر

پھر بھی اب ترک یہ وحشت نہیں کی جا سکتی

حبس کا شہر ہے اور اِس میں کسی بھی صُورت

سانس لینے کی سہولت نہیں دی جا سکتی

روشنی کیلئے دروازہ کھُلا رکھنا ہے

شب سے اب کوئی اجازت نہیں لی جا سکتی

عشق نے ہجر کا آزار تودے رکھا ہے

اِس سے بڑھ کو تو رعایت نہیں دی جا سکتی





یہ شہر بے مثال تجھے دیکھ کر ہُوا

اپنے خلاف شہر کے اندھے ہجوم میں

دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہُوا

طُولِ شبِ فراق تری خیر ہو کہ دل

آمادۂ وصال تجھے دیکھ کر ہُوا

یہ ہم ہی جانتے ہیں جُدائی کے موڑ پر

اِس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہُوا

آئی نہ تھی کبھی مِرے لفظوں میں روشنی

اور مُجھ سے یہ کمال تجھے دیکھ کر ہُوا

بچھڑے تو جیسے ذہن معطّل سا ہو گیا

شہرِ سخن بحال تجھے دیکھ کر ہُوا

پھر لوگ آ گئے مِرا ماضی کُریدنے

پھر مُجھ سے اَک سوال تجھے دیکھ کر ہُوا







صبح کی رنگت دھانی بھی ہو سکتی ہے

جب کشتی ڈالی تھی کس نے سوچا تھا

دریا میں طُغیانی بھی ہو سکتی ہے

نئے سفر کے نئے عذاب اور نئے گُلاب

صُورت حال پرانی بھی ہو سکتی ہے

ہر پَل جو دِل کو دہلائے  رکھتی ہے

کُچھ بھی نہیں حیرانی بھی ہو سکتی ہے

سفر ارادہ کر تو لیا پر رستوں میں

رات کوئی طوفانی بھی ہو سکتی ہے

اُس کو میرے نام سے نسبت ہے لیکن

بات یہ آنی جانی بھی ہو سکتی ہے






تجھ سے گر بد گُمان ہو جاتے

ضبطِ غم نے بچا لیا ورنہ

ہم کوئی داستان ہو جاتے

تُو نے دیکھا نہیں پلٹ کے ہمیں

ورنہ ہم مہربان ہو جاتے

تیرے قصّے میں ہم بھلا خُود سے

کس لیے بد گُمان ہو جاتے

تیرے دل کی زمین ہی نہ مِلی

ورنہ ہم آسمان ہو جاتے





بہت تاخیر سے لیکن

کھُلا یہ بھید خُود پر بھی

کہ میں اب تک

مّحبت جان کر جس

جذبۂ دیرینہ کو اپنے لہُو سے سینچتی آئی

وہ جس کی ساعتِ صد مہرباں ہی زندگی کی شرط ٹھہری تھی

فقط اک شائبہ ہی تھا مّحبت کا

یُو نہی عادت تھی ہر رستے پہ اُس کے ساتھ چلنے کی

وگر نہ ترک خواہش پر

یہ دل تھوڑا سا تو دُکھتا

ذرا سی آنکھ نَم ہوتی








اب بھی شاعر رہوں
کِس کی خاطر رہوں
کون ہے جو مرے لفظ و معنی کی آنکھوں سے بہتے ہُوئے
آنسوؤں میں چھُپے درد چُنتا پھرے
خواب بُنتا پھرے
کون ہے جو مِرے خُون ہوتے ہُوئے دل کی آواز پر
اپنی آواز کے ہونٹ رکھتا پھرے
کون آنکھیں مِری دیکھ کر یہ کہے
’’کیا ہُوا جانِ جاں
کب سے سوئی نہیں
اس سے پہلے تو تم اِتنا روئی نہیں
اَب بھلا کِس لیے خُوبصورت سی آنکھیں پریشان ہیں
اپنی حالت پہ خُود اتنی حیران ہیں ‘‘
کون بے چین ہو
کون بے تاب ہو
موسمِ ہجر ک شامِ تنہائی میں
آبلہ پائی میں
کون ہو ہم سفر ، گرد ہے رہگزر
کوئی رستہ نہیں کوئی راہی نہیں
در پہ دستک کی کوئی گواہی نہیں
دل کے ویران و برباد صفحات پر
جس قدر لفظ لکھے تھے بے کار ہیں
ایک لمبی جُدائی کے آثار ہیں
سوچتی ہوں کہ اَب
ان خیالوں سے خوابوں سے باہر رہوں
کیوں میں شاعر رہوں
کِس کی خاطر رہوں


****



شاعری ردِ بلا ہوتی ہے

****






مِرے بے ہُنر مِرا سات دے

مِری پیاس صدیوں کی پیاس ہے

مِرے کربلا کو فرات دے

مِرے رتجگوں کے حساب میں

کوئی ایک نیند کی رات دے

کوئی ایسا اسمِ عظیم ہو

مُجھے تیرے دُکھ سے نجات دے

یہ جو تِیرگی ہے غُرور میں

کوئی روشنی اِسے مات دے

مِری شاعری کے نصیب میں

کوئی ایک حرفِ ثبات دے








کی جائے تو پھر اس کی شکایت نہیں کی جائے

اس معرکۂ عشق میں اے اہلِ محبت

آساں ہے عداوت پہ عداوت نہیں کہ جائے

یہ دل کہ اُسی زُود فراموشی پہ مائل

اور ذہن بضد اس سے محبت نہیں کی جائے

ہم اہلِ سخن ہیں تو روایت کے مطابق

مصلوب کیا جائے رعایت نہیں کی جائے

یہ لوگ تماشا ہیں تو پھر ان سے جنوں میں

کوئی بھی بیاں دل کی حکایت نہیں کی جائے





خامشی سے ہاری میں

جان تجھ پہ واری میں

تِیرگی کے موسم میں

روشنی … پُکاری میں

عِشق میں بکھرنے تک

حوصلہ نہ ہاری میں

ڈھونڈنے وفا نِکلی

قِسمتوں کی ماری میں

اُس طرف زمانہ تھا

اِس طرف تھی ساری میں

زندگی کی بے سمتی

دیکھ تجھ سے باری میں







غرور لہجے میں آ گیا تو کلام ممکن نہیں رہے گا

یہ برف موسم جو شہرِ جاں میں کُچھ اور لمحے ٹھہر گیا تو

لہو کا دل کی کسی گلی میں قیام ممکن نہیں رہے گا

تم اپنی سانسوں سے میری سانسیں الگ تو کرنے لگے ہو لیکن

جو کام آساں سمجھ رہے ہو وہ کام ممکن نہیں رہے گا

وفا کا کاغذ تو بھیگ جائے گا بدگُمانی کی بارشوں میں

خطوں کی باتیں تو خواب ہوں گی پیام ممکن نہیں رہے گا

میں جانتی ہوں مجھے یقیں ہے اگر کبھی تُو مجھے بھُلا دے

تو تیری آنکھوں میں روشنی کا قیام ممکن نہیں رہے گا

یہ ہم محبّت میں لا تعلّق سے ہو رہے ہیں تو دیکھ لینا

دُعائیں تو خیر کون دے گا سلام ممکن نہیں رہے گا






بالآخر ہر دُکھ کو سہنا پڑ جائے گا

وقت کی گردش میں آئے تو جان لیا ہے

جھُوٹی بات کو سچّی کہنا پڑ جائے گا

اُس کی یاد کے منظر میں اب رات گئے تک

آنسو بن کر آنکھ سے بہنا پڑ جائے گا

جس لہجے کی خُوشبو ہر پَل ساتھ رہی ہو

اَسے بھی اب بیگانہ کہنا پڑ جائے گا








کسی کی بات چلے میں تُمھاری بات کروں



ہجر کی پُوری رات آتی ہے صبحِ وصال سے پہلے

دِل کا کیا ہے دِل نے کتنے منظر دیکھے لیکن

آنکھیں پاگل ہو جاتی ہیں ایک خیال سے پہلے

کس نے ریت اُڑائی شب میں آنکھوں کھول کے رکھیں

کوئی مثال تو ہو ناں اس کی مثال سے پہلے

کارِ محبت ایک سفر ہے اِس میں آ جاتا ہے

ایک زوال آثار سا رستہ بابِ کمال سے پہلے

عشق میں ریشم جیسے وعدوں اور خوابوں کا رستہ

جتنا ممکن ہو طے کر لیں گر دِ ملال سے پہلے





پڑی ہُوئی تھیں مُجھے کِتنی عادتیں اُس کی

یہ میرا سارا سَفر اُس کی خوشبوؤں میں کٹا

مجھے تو راہ دکھاتی تھیں چاہتیں اُس کی

گھِری  ہُوئی ہوں میں چہروں کی بھیڑ میں لیکن

کہیں نظر نہیں آتیں شباہتیں اُس کی

مَیں دُور ہونے گلی ہوں تو ایسا لگتا ہے

کہ چھاؤں جیسی تھیں مجھ پر رفاقتیں اُس کی

یہ کِس گلی میں یہ کِس شہر میں نِکل آئے

کہاں پہ رہ گئیں لوگو صداقتیں اُس کی

میں بارشوں میں جُدا ہو گئی ہوں اُس سے مگر

یہ میرا دل، مِری سانسیں امانتیں اُس کی







زندگی سے ڈر جائیں

ہجر کے سمندر کو

آؤ پار کر جائیں

راستے یہ کہتے ہیں

اب تو اپنے گھر جائیں

اِک ذرا سی مُہلت ہو

دل کی بات کر جائیں

شہرِ عشق سے آخر

کیسے معتبر جائیں

وہ پلٹ کے دیکھے تو

رنگ سے بِکھر جائیں








ذرا سی بات پر اتنا بکھر نے کیوں لگی ہوں


وہ جس موسم کی اب تک منتظر آنکھیں تھیں میری

اسی موسم سے اب میں اِتنا ڈرنے کیوں لگی ہوں


مُجھے نادیدہ رستوں پر سفر کا شوق بھی تھا

تھکن پاؤں سے لپٹی ہے تو مرنے کیوں لگی ہوں


مُجھے یہ چار دیواری کی رونق مار دے گی

مَیں اِک امکان تھی منزل کا مٹنے کیوں لگی ہوں


میں جس کو کم سے کم محسوس کرنا چاہتی تھی

اُسی کی بات کو اِتنا سمجھنے کیوں لگی ہوں


جو میرے دل کی گلیوں سے کبھی گُزرا نہیں تھا

اب اپنے ہاتھ سے خط اس کو لکھنے کیوں لگی ہوں


بدن کی راکھ تک بھی راستوں میں ناں بچے گی

برستی بارشوں میں یُوں سُلگنے کیوں لگی ہوں


وُہی سُورج ہے دُکھ کا پھر یہ ایسا کیا ہُوا ہے

میں پتھر تھی تو آخر اَب پگھلنے کیوں لگی ہوں








اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اِک خواب بہت برباد ہُوا

یہ ہجر ہَوا بھی دُشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی

وہ نام جو، میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہُوا

اِس شہر میں کتنے چہرے تھے، کُچھ یاد نہیں سب بھُول گئے

اِک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہُوا

وہ اپنی گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا

اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہُوا یا شاد ہُوا

بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں

ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بے داد ہُوا








سُخن کرنے سے پہلے سوچتی ہُوں

اُداسی مُشتہر ہونے لگی ہے

بھرے گھر میں تماشا ہو گئی ہُوں

کبھی یہ خواب میرا راستہ تھے

مگر اب تو اذاں تک جاگتی ہُوں

بس اِک حرفِ یقین کی آرزو میں

مَیں کتنے لفظ لکھتی جا رہی ہُوں

مَیں اپنی عُمر کی قیمت پہ تیرے

ہر ایک دُکھ کا ازالہ ہو رہی ہُوں

غضب کا خوف ہے تنہائیوں میں

اب اپنے آپ سے ڈرنے لگی ہُوں







گُریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے

کبھی وہ دن تھے کہ زُلفوں میں شام رکھتے تھے

تمھارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو

وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے

ہمیں بھی گھیر لیا گھر زعم نے تو کھُلا

کُچھ اور لوگ بھی اِ س میں قیام رکھتے تھے

یہ اور بات ہمیں دوستی نہ راس آئی

ہُوا تھی ساتھ تو خُوشبو مقام رکھتے تھے

نجانے کون سی رُت میں بچھڑ گئے وہ لوگ

جو اپنے دل میں بہت احترام رکھتے تھے

وہ آ تو جاتا کبھی ، ہم تو اُس کے رستوں پر

دئے جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے







ہَوا کا شور گہرا ہو گیا ہے

کسی کے لمس کا یہ معجزہ ہے

بدن سارا سنہرا ہو گیا ہے

یہ دل دیکھوں کہ جس کے چار جانب

تری یادوں کا پہرہ ہو گیا ہے

وُہی ہے خال و خد میں روشنی سی

پہ تِل آنکھوں کا گہرا ہو گیا ہے

کبھی اس شخص کو دیکھا ہے تم نے

محّبت سے سنہرا ہو گیا ہے









عذاب جاں پہ سہا ہے تو گھر بچایا ہے

تمام عُمر تعلّق سے مُنحرف بھی رہے

تمام عُمر اِسی کو مگر بچایا ہے

بدن کو برف بناتی ہُوئی فضا میں بھی

یہ مُعجزہ ہے کہ دستِ ہُنر بچایا ہے

سحرِ ہوئی تو مِرے گھر کو راکھ کرتا تھا

وہ اِک چراغ جسے رات بھر بچایا ہے

کُچھ ایسی صُورت حالات ہو گئی دل کو

جنوں کو ترک کیا اور ڈر بچایا ہے

یقینِ شہر ہُنر نے یقین موسم میں

بہت کٹھن تھا بچانا مگر بچایا ہے





کہ لب پہ کوئی دُعا نہیں ہے

عذابِ جاں کا صِلہ نہ مانگو

ابھی تمھیں تجربہ نہیں ہے

اُداس چہرے، سوال آنکھیں

یہ میرا شہر وفا نہیں ہے

یہ بستیاں جس نے راکھ کر دیں

چراغ تھا وہ، ہَوا نہیں ہے

کوئی تو لمحہ سکون کا بھی

یہ زندگی ہے، سزا نہیں ہے








بہت تھا جَبر لیکن سہہ لیا ہے

عذاب ہجر اَب واپس پلٹ جا

بہت دِن ساتھ میرے رہ لیا ہے

نمیَ آنکھوں سے جاتی ہی نہیں ہے

ستم اس دِل نے اِتنا سہہ لیا ہے

یہ دل کوئی ٹھکانہ چاہتا ہے

بہت دن راستوں میں رہ لیا ہے

تجھے کہنا تھا جو احوال دِل کا

درو  دیوار سے ہی کہہ لیا ہے






ابھی تری داستان میں گُم ہُوں

میں دیکھ سکتی ہُوں دوستوں کو

مگر صفِ دشمناں میں گُم ہُوں

بدن کا اپنا عذاب ہے اور

اسی عذاب زیاں میں گُم ہُوں

یہ لوگ گھر کہہ رہے ہیں جس کو

میں ایک ایسے مکاں میں گُم ہُوں

کہاں وہ لذت مسافتوں کی

میں منزلوں کے نشاں میں گُم ہُوں

خبر نہیں موج دشت جاں کی

ہوَا ہُوں اور باد باں میں گُم ہُوں

ابھی کہا ں فرصتِ محبّت

ابھی میں کارِ جہاں میں گُم ہُوں








ایک چہرہ اُس طرف ہے ایک چہرہ اس طرف

روشنی کے اِستعارے اس کنارے رہ گئے

اب تو شب میں کوئی جگنو ہے نا تارا اس طرف

تُم ہَوا ان کھڑکیوں سے صرف اِتنا  دیکھنا

اُس نے کوئی خط کِسی کے نام لَکھا اِس طرف

یہ محبّت بھی عیب تقسیم کے موسم میں ہے

سارا جذبہ اُس طرف ہے صرف لہجہ اس طرف

ماں نے کوئی خوف ایسا رکھ دیا دل میں مِرے

سچ کبھی میں بول ہی پائی نہ پُورا اِس طرف

ایک ہلکی سی چبھن احساس کو گھیرے رہی

گفتگو میں جب تُمھارا ذِکر آیا اِس طرف

صرف آنکھیں کانچ کی باقی بدن پتَھر کا ہے

لڑکیوں نے کس طرح رُوپ دھارا اِس طرف

اے ہَوا اے میرے دِل کے شہر سے آتی ہَوا

تجھ کو کیا پیغام دے کر اُس نے بھیجا اَس طرف

کِس طرح کے لوگ ہیں یہ کُچھ پتہ چلتا نہیں

کون کِتنا اُس طرف ہے کون کتنا اِس طرف







وصال و ہجر میں

یا خواب سے محروم آنکھوں میں

کِسی عہدِ رفاقت میں

کہ تنہائی کے جنگل میں

خیال خال و خد کی روشنی کے گہر ے بادل میں

چمکتی دھُوپ میں یا پھر

کِسی بے اَبر سائے میں

کہیں بارش میں بھیگے جسم و جاں کے نثر پاروں میں

کہیں ہونٹوں پہ شعروں کی مہکتی آبشاروں میں

چراغوں کی سجی شاموں میں

یا بے نُور راتوں میں

سحر ہو رُو نما جیسے کہیں باتوں ہی باتوں میں

کوئی لپٹا ہوا ہو جس طرح

صندل کی خوشبو میں

کہیں پر تتلیوں کے رنگ تصویریں بناتے ہوں

کہیں جگنوؤں کی مٹھیوں میں روشنی خُود کو چھُپاتی ہو

کہیں کیسا ہی منظر ہو

کہیں کیسا ہی موسم ہو

ترے سارے حوالوں کو

تری ساری مثالوں کو

محّبت یاد رکھتی ہے






سفر آساں لگتا ہے

دل برباد تجھ کو یہ سفر آساں لگتا تھا

اُدھر تو سوچتا تھا اور ادھر

آنکھوں سے کوئی خواب چہرہ آن لگتا تھا

مگر خوابوں میں رہنا

خواب جیسی بے حقیقت خوشبو کو صحرا میں رہنا ہے

کناروں سے جوہو محروم

اس دریا میں رہنا ہے

دل برباد ہم نے تو کہا تھا

یہ سفر آسان لگتا ہے

مگر آنکھیں بدن سے چھین لیتا ہے





مِرا تجھ پر یقیں کم ہو گیا ہے
***







ضمیرِ عالمِ انسانیت خبر ہے تجھے

شرار و شعلہ کی زد میں ہے وادی کشمیر

تجھے خبر ہے کہ جنّت نشاں یہ وادی

لہو لہو ہُوئی جاتی ہے دستِ قاتل سے

جہاں یہ روشنی خُوشبو بکھرتی تھی کبھی

وہاں پہ خاک ہُوئی جا رہی ہے آزادی

وہ پھُول اُگاتی زمیں اور گیت گاتی زمیں

وفا کے رنگ محبت سے مُسکراتی زمیں

کہ جس کے خواب بھی روشن ، نگاہ بھی روشن

کہ جِس کے راستے دل سے گُزر کے جاتے ہیں

وہ دلفریب ،دل آویز، دلُربا منظر

گُزرنے والوں کے دل اُترتے جاتے ہیں

ضمیرِ عالمِ انسانیت خبر ہے تجھے

وہ منظروں میں جو منظر تھے بجھتے جاتے تھے

وہ پھُول سوکھتے اور گیت مرتے جاتے ہیں

ضمیرِ عالمِ انسانیت خبر ہے تجھے

شرار و شعلہ کی زد میں ہے وادی کشمیر

تجھے خبر ہے جنّت نشاں ہے وادی

لہو لہو ہُوئی جاتی ہے دستِ قاتل سے

یہ دستِ قتل وفا جتنا بڑھتا جائے گا

ترے وقار کی گردن تلک بھی آ جائے گا

ضمیرِ عالم انسانیت سنبھال اسے

شرار و شعلہ کی زد میں ہے وادی کشمیر








کاش آنسو مِری آنکھوں میں ہی رہ جایا کرے

اے ہَوا مَیں نے تو بس اُس کا پتہ پوچھا تھا

اب کہانی تو نہ ہر بات کی بن جایا کرے

بس بہت دیکھ لے خواب سُہانے دن کے

اب و ہ باتوں کی رفاقت سے نہ بہلایا کرے

اِک مصیبت تو نہیں ٹوٹی سو اب اس دِل سے

جس قیامت نے گزرنا ہے گُزر  جایا کرے

دل نے اب سوچ لیا ہے کہ یہ ظالم دنیا

جو بھی کرنا ہے کرے مُجھ کو نہ اُلجھایا کرے

جس کے خوابوں کو میں آنکھوں میں سجا کر رکھوں

اس کی خوشبو کبھی مُجھ کو بھی تو مہکا یا کرے






کہاں گئی اے میرے دِل وہ خوش گمانی تری

یہاں پہ کون اندھیروں میں ساتھ چلتا ہے

توُ اب بھی ساتھ مِرے ہے یہ مہربانی

تجھے خبر نہیں ہم دیکھ کر بہت روئے

نئی کتاب میں تصویر اِک پُرانی تری

ابھی سے آبلے پڑنے لگے ہیں پاؤں میں

ابھی تو دُور ہے منزل سفر کہانی تری

بھُلائے بیٹھے ہیں اور اپنے حال میں خُوش ہیں

تُو آ کے دیکھ کبھی ہم نے بات مانی تری







تو ہم کبھی کے گھروں کو پلٹ گئے ہوتے

قریب رہ کے سلگنے سے کِتنا بہتر تھا

کِسی مقام پہ ہم تم بچھڑ گئے ہوتے

کبھی توریت کو ہم مٹّھیوں میں بھر لیتے

کبھی ہَواؤں سے اپنے مکالمے ہوتے

ہمارے نام پہ کوئی چراغ تو جلتا

کسی زبان پہ ہمارے بھی تذکرے ہوتے

ہم اپنا کوئی الگ راستہ بنا لیتے

ہمارے دل نے اگر حوصلے کیے ہوتے










سب اِرادے سنبھال کر رکھے

کُچھ نئے رنگ ہیں محبت کے

کُچھ پرانے سنبھال کر رکھے

موسم عشق تیری بارش میں

خط جو بھیگے سنبھال کر رکھے

جن کی خُوشبو اُداس کرتی تھی

وہ بھی گجرے سنبھال کر رکھےّ

تُجھ سے مِلنے کے اور بچھڑنے کے

سارے خدشے سنبھال کر رکھے

جب ہوا کا مزاج برہم تھا

ہم نے پتے سنبھال کر رکھے

آرزو کے حسین پنجرے میں

کُچھ پرندے سنبھال کر رکھے

ہم نے دِل کی کتاب میں تیرے

سارے وعدے سنبھال کر رکھے

تیرے دُکھ کے تمام ہی موسم

اے زمانے سنبھال کر رکھے

میرے خوابوں کو راکھ کر ڈالا

اور اپنے سنبھال کر رکھے







تہمتیں تو لگتی ہیں

روشنی کی خواہش میں

گھر سے باہر آنے کی کُچھ سزا تو ملتی ہے

لوگ لوگ ہوتے

ان کو کیا خبر جاناں !

آپ کے اِرادوں کی خوبصورت آنکھوں میں

بسنے والے خوابوں کے رنگ کیسے ہوتے ہیں

دل کی گود آنگن میں پلنے والی باتوں کے

زخم کیسے ہوتے ہیں

کتنے گہرے ہوتے ہیں

کب یہ سوچ سکتے ہیں

ایسی بے گناہ آنکھیں

گھر کے کونے کھدروں میں چھُپ کے کتنا روتی ہیں

پھر بھی یہ کہانی سے

اپنی کج بیانی سے

اس قدر روانی سے داستان سنانے

اور یقین کی آنکھیں

سچ کے غمزدہ دل سے لگ کے رونے لگتی ہیں

تہمتیں تو لگتی ہیں

روشنی کی خواہش میں

تہمتوں کے لگنے سے

دل سے دوست کو جاناں

اب نڈھال کیا کرنا

تہمتوں سے کیا ڈرنا






اور اَب وہ بھی بُجھ گیا لوگو

ہم نے چُپ چاپ ہا رمانی تھی

تم نے تو شور کر دیا لوگو

ساتھ رہ کر بھی کِتنا نادم تھا

کب تلک جھُوٹ بولتا لوگو

وہ بھی خاموش تھا جُدائی پر

ہم نے بھی ضبط کر لیا لوگو

زندگی کا سفر تمھارے بغیر

آخرِ کار کٹ گیا لوگو

ہم نے اِک روز لَوٹ آنا تھا

کوئی تو راہ دیکھتا لوگو









زخمِ تنہائی مِرے ہمراز نے

اس کہانی کو ملے انجام کیا

جس کو رُسوا کر دیا آغاز نے

شہر کو کچھ اور عنواں دے دئیے

میری لغزش اور ترے انداز نے

کِس یقیں اور کِس تسلسل سے دئے

دل کو دھو کے اس محّبت باز نے

کتنا سُندر کِتنا کومل کر دیا

میرے گیتوں کو تری آواز نے





غم کی آبیاری میں

ہم ملے محّبت کی

پہلی برف باری میں

گھر سے کون نکلے گا

اِتنی سنگ باری میں

اِک سکون شامل ہے

دل کی بے قراری میں

عُمر ساری گُزری ہے

کِتنی سو گواری میں

اِک فریب لگتا ہے

اس کی اِنکساری میں








وہ جس کی یاد سے دل کو کنارا ہی نہیں ہے

محّبت کھیل ایسا تو نہیں ہم لَوٹ جائیں

کہ اِس میں جیت بھی ہو گی خسارا ہی نہیں ہے

کبھی وہ جگنوؤں کو مُٹھیوں میں قید کرنا

مگر اب تو ہمیں یہ سب گوارا ہی نہیں ہے

اب اس کے خال و خد کا ذکر کیا کرتے کِسی سے

کہ ہم پر آج تک وہ آشکارا ہی نہیں ہے

یہ خواہش تھی کہ ہم کُچھ دُور تک تو ساتھ چلتے

ستاروں کا مگر کوئی اِشارا ہی نہیں ہے

بہت سے زخم کھانے دل نے آخر طے کیا ہے

تمھارے شہر میں اپنا گزارا ہی نہیں ہے







مِری آنکھیں سلامت ہیں

مِرا دل میرے سینے میں دھڑکتا ہے

مُجھے محسوس ہوتا ہے

محّبت کم نہیں ہو گی

محّبت ایک وعدہ ہے

جو سچاّئی کی ان دیکھی کسی ساعت میں ہوتا ہے

کِسی راحت میں ہوتا ہے

یہ وعدہ شاعری بن کر مرے جذبوں میں دھُلتا ہے

مجھے محسوس ہوتا ہے

محّبت کم نہیں ہو گی

محّبت ایک موسم ہے

کہ جس میں خواب اُگتے ہیں تو خوابوں کی ہری

شاخیں

گُلابوں کو بُلاتی ہیں

انھیں خُوشبو بناتی ہیں

یہ خُوشبو جب ہماری کھڑکیوں پر دستکیں دے کر

گُزرتی ہے

مُجھے محسوس ہوتا ہے

محّبت کم نہیں ہو گی








آخری شام ہے اُداسی کی

تیری باتوں کو معتبر جانا

ہم نے لغزش نہیں ذرا سی کی

یوں ہُوا میں تھکی تھکی کب تھی

کیفیت آج ہے اُداسی کی

میری تاریخ کے بدن تجھ کو

اب ضرورت ہے بے لباسی کی






جو بات کرتا گیا اور اُداس کرتا گیا
**




موت اور محّبت کی ایک ہی کہانی ہے

کھیل جو بھی تھا جا ناں اب حساب کیا کرنا

جیت جس کسی کی ہو ہم نے بار مانی ہے

وصل پر بھی نادم تھے ہجر پر بھی شرمندہ

وہ بھی رائیگانی تھی یہ بھی رائیگانی ہے

یہ مِرا ہُنر تیری خوشبوؤں سے وابستہ

میرے سارے لفظوں پر تیری حکمرانی ہے

جانے کون شہزادہ کب چُرا کے لے جائے

وہ جو اپنے آنگن میں خُوشبوؤں کی رانی ہے






سُنو!

جب خُوشبوئیں اعلان کرتی ہیں

کسی کے لوٹ آنے کا

تو پھر لفظوں میں کیسے لکھ سکیں گے

اس کی آمد کی کہانی کو

وفا کی حکمرانی کو

سُنو، تم بھی ذرا دیکھو

محّبت کی دُعائیں مانگتی شب نے

نئے اِک سُرخ رو دن کے سُہانے خواب

دیکھے ہیں

یہ کیسا خُوشنما احساس ہے

آئندہ برسوں میں

ہر اِک موسم ، ہر اک دن کی دھنک

کرنوں کو

ہم اِک ساتھ برتیں گے

سُنو!یہ خُوشبوئیں اعلان کرتی ہیں








ہم نے سوچ رکھا ہے

چاہے دل کی ہر خواہش

زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے

بہہ جائے

چاہے اب مکینوں پر

گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گِر جائیں

اور بے مقّدر ہم

اس بدن کے ملبے میں خُود ہی کیوں نہ دَب جائیں

تم سے کُچھ نہیں کہنا

کیسی نیند تھی اپنی ، کیسے خواب تھے اپنے

اور اب گلابوں پر

نیند والی آنکھوں پر

نرم خُو سے خوابوں پر

کیوں عذاب ٹوٹے ہیں

تم سے کچھ نہیں کہنا

گھِر گئے ہیں راتوں میں

بے لباس باتوں میں

اِس طرح کی راتوں میں

کب چراغ جلتے ہیں، کب عذاب ملِتے ہیں

اب تو اِن عذابوں سے بچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں!

جس طرح تمھیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں

ہم نے سوچ رکھا تُم سے کُچھ نہیں کہنا





مِرے ساتھی

مِری یہ رُوح میرے جسم سے پرواز کر جائے

تو لوٹ آنا

مِری نے خواب راتوں کے عذابوں پر

سسکتے شہر میں تُم بھی

ذرا سی دیر کو رُکنا

مِرے بے نُور ہونٹوں کی دُعاؤں پر

تُم اپنی سرد پیشانی کا پتھر رکھ کے رو دینا

بس اِتنی بات کہہ دینا

’’مجھے تُم سے محّبت ہے ‘‘

**

سوچتی ہوں تم اپنے آپ سے اِتنا کیسے بھاگتے ہو







یا مقدّر میں راستہ ہی نہیں

وہ بھرے شہر میں کِسی سے بھی

میرے بارے میں پُوچھتا ہی نہیں

پھر وُہی شام ہے وُہی ہم ہیں

ہاں مگر دِل میں حوصلہ ہی نہیں

ہم چلے اُس کی بزم سے اُٹھ کر

اور وہ ہے کہ روکتا ہی نہیں

دل جو اِک دوست تھا مگر وہ بھی

چُپ کا پتھّر ہے بولتا ہی نہیں

مَیں تو اُس کی تلاش میں گُم ہوں

وہ کبھی مُجھ کو ڈھونڈتا ہی نہیں





یہ کیا بے نام اُلجھن ہے

نجانے آگہی اور خواب کے مابین کیسا مسئلہ ہے

کہ ہر تخلیق سے پہلے

عجب اِک خوف دل کو گھیر لیتا ہے

مجھے محسوس ہوتا ہے

میں اپنی آخری تحریر لکھنے جا رہی ہوں

سخن کی شب کے ماتھے پر

وہ میرے نام کے جتنے ستارے تھے

وفا کے اِستعارے تھے

سب اپنی عُمر پُوری کر چکے ہیں

یہی دھڑ کا سا رہتا ہے

کہ جتنے شعر لکھے تھے

جنھیں میں

اپنے ہونے کی گواہی کی طرح محسوس کرتی تھی

یہ اب لکّھے نہ جائیں گے

یہ اب سوچے نہ جائیں گے

مری نظمیں

جواب تک آرزوؤں کا سُنہرا عکس بن کر جھلملاتی تھیں

محّبت کی زمینوں پر اُترتے

ہجر کے اور وصل کے سب موسموں کی بات کرتی تھیں

انھیں تحریر کرنے کا ہُنر بھی بھُول جاؤں گی

گُماں یہ بے ثباتی کا

یقیں بن بن کے ہر لمحہ

بڑی شدت سے میرے ذہن کا دامن ہلاتا ہے

یہی باور کراتا ہے

کہ حرف و لفظ کا جتنا اثاثہ تھا

فنا کی سرحدوں پر ہے

سخن سّچائی کا سارا تفاخر ٹوٹنے کو ہے

محّبت رُوٹھنے کو ہے

یہ کیا بے نام اُلجھن ہے

کہ ہر تخلیق سے پہلے

عجب اِک خوف دِل کو گھیر لیتا ہے

مُجھے محسوس ہوتا ہے

میں اپنی آخری تحریر لکھنے جا رہی ہوں






کُچھ تو رہ جاؤں میں کام اپنے بھی آنے کیلئے




تیرے چاہنے والے شور کیا مچائیں گے

صُبح کی ہَوا تجھ کو وہ ملے تو کہہ دینا

شام کی منڈیروں پر ہم دیئے جلائیں گے

ہم نے کب ستاروں سے روشنی کی خواہش کی

ہم تمہاری آنکھوں سے شب کو جگمگائیں گے

تُجھ کو کیا خبر جاناں ہم اُداس لوگوں پر

شام کے سبھی منظر اُنگلیاں اٹھائیں گے

ہم تری محبت کے جگنوؤں کی آمد پر

تِتلیوں کے رنگوں سے راستے سجائیں گے






جیسے کوئی وصل کی رات کا قصہ تھا

بستی کے اس پار کہیں پر رات ڈھلے

لمبی چیخ کے بعد کوئی سناٹا تھا

جس کو اپنا گھر سمجھے تھے وہ تو محض

دیواریں تھیں اور ان میں دروازہ تھا

ہم نے اسے بھی لفظوں میں زنجیر کیا

بادل جیسا جو آوارہ پھرتا تھا

منزل کو سر کرنے والے لوگوں نے

رستوں کا بھی ہر اندیشہ دیکھا تھا

کیسے دن ہیں اس کا چہرہ دیکھ کے ہم

سوچ رہے ہیں پہلے کہاں پہ دیکھا تھا









مِرے دُشمنوں سے کہو کوئی

کسی گہری چال کے اہتمام کا سلسلہ ہی فضول ہے

کہ شکست یوں بھی قبول ہے

کبھی حوصلے جو مثال تھے

وہ نہیں رہے

مِرے حرف حرف کے جسم پر

جو معانی کے پر و بال تھے وہ نہیں رہے

مِری شاعری کے جہان کو

کبھی تتلیوں ،کبھی جگنوؤں سے سجائے پھرتے

خیال تھے

وہ نہیں رہے

مِرے دشمنوں سے کہو کوئی

وہ جو شام شہر وصال میں

کوئی روشنی سی لیے ہوئے کسی لب پہ جتنے سوال تھے

وہ نہیں رہے

جو وفا کے باب میں وحشتوں کے کمال تھے،وہ نہیں رہے

مِرے دُشمنوں سے کہو کوئی

وہ کبھی جو عہدِ نشاط میں

مُجھے خود پہ اِتنا غرور تھا کہیں کھو گیا

وہ جو فاتحانہ خُمار میں

مِرے سارے خواب نہال تھے

وہ نہیں رہے

کبھی دشت لشکر شام میں

مِرے سُرخ رد مہ و سال تھے، وہ نہیں رہے

کہ بس اب تو دل کی زباں پر

فقط ایک قصّۂ حال ہے—– جو

نڈھال ہے

جو گئے دنوں کا ملال ہے

مِرے دُشمنوں سے کہو کوئی








مگر جو دل میں بس رہا ہے مہربان اور ہے

جو مُجھ سے منسلک ہُوئیں کہانیاں کُچھ اور تھیں

جو دِل کو پیش آئی ہے وہ داستان اور ہے

یہ مرحلہ تو سہل تھا محبتوں میں وصل کا

ابھی تمہیں خبر نہیں کہ امتحان اور ہے

وہ دن کدھر گئے مِرے وہ رات کیا ہوئی مِری

یہ سرزمین نہیں ہے وہ یہ آسمان اور ہے

وہ جس کو دیکھتے ہو تم ضرورتوں کی بات ہے

جو شاعری میں ہے کہیں وہ خُوش بیان اور ہے

جو سائے کی طرح سے ہے وہ سایہ دار بھی تو ہے

مگر ہمیں ملا ہے جو وہ سائبان اور ہے







کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

تری بات بات کی روشنی

مِرے حرف حرف میں بھر سکے

ترے لمس کی یہ شگفتگی

مرے جسم و جاں میں اُتر سکے

کوئی چاندنی کسِی گہرے رنگ کے راز کی

مرے راستوں میں بکھر سکے

تری گفتگو سے بناؤں میں

کوئی داستاں کوئی کہکشاں

ہوں محبتوں کی تمازتیں بھی کمال طرح سے مہرباں

ترے بازوؤں کی بہار میں

کبھی جُھولتے ہُوئے گاؤں میں

تری جستجو کے چراغ کو سر شام دِل میں جلاؤں

اِسی جھلملاتی سی شام میں

لِکھوں نظم جو ترا رُوپ ہو

کہیں سخت جاڑوں میں ایک دم جو چمک اُٹھے

کوئی خوشگوار سی دھُوپ ہو

جو وفا کی تال کے رقص کا

کوئی جیتا جاگتا عکس ہو

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

کہ ہر ایک لفظ کے ہاتھ میں

ترے نام کی

ترے حروف تازہ کلام کے

کئی راز ہوں

جنھیں مُنکشف بھی کروں اگر

تو جہان شعر کے باب میں

مِرے دل میں رکھی کتاب میں

ترے چشم و لب بھی چمک اٹھیں

مجھے روشنی کی فضاؤں میں کہیں گھیر لیں

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی




**

کسی کی یاد میں رہنا کمال لگتا ہے
***

بہت نا مہرباں یہ آسماں ہے

دِلوں پر برف گرتی جا رہی ہے

بدن کا تجزیہ بھی رائیگاں ہے

میں اُس سے بات کرنا چاہتی ہوں

بتاؤ تو سہی وہ اَب کہاں ہے

اَنا کی ریت شامل ہو گئی ہے

ہَوا سے گفتگو اب رائیگاں ہے

مجھے اس کا یقیں ہرگز نہیں تھا

مِری جانب سے اِتنا بدگماں ہے

محبّت اِک ندامت بن گئی ہے

ہماری مختصر سی داستاں ہے






عُمر بھر حالتِ سفر میں رہے

لفظ سارے چراغ بن جائیں

وصف ایسا مرے ہُنر میں آ جائے

زہر سارا شجر میں آ جائے

اے خُدا زندگی ثمر میں رہے

اس لیے گردشوں کو پالا ہے

کوئی تو حلقۂ اثر میں رہے

اِک زمانہ گھروں میں تھا آباد

بے گھر ہم تری نظروں میں رہے









وہ تیرگی تھی لفظوں کو راستہ نہ ملا

کوئی چراغ قبیلہ مرے ہُنر کے لیے

٭٭٭٭

دل پر ہوتے جبر ابھی دیکھے ہی نہیں ہیں

تم نے اہلِ صبر ابھی دیکھے ہی نہیں ہیں

٭٭٭٭

سوچ رہے ہیں صبح تلک اِک بار بھی آنکھ نہیں جھپکی

اب تو تیرے ہجر میں ہم نے پہلی رات گزاری ہے



٭٭٭٭

قریب تھا تو کسے فُرصت محبّت تھی

ہُوا ہے دُور تو اُس کی وفائیں یاد آئیں

٭٭٭٭

آج دیکھو زمیں کے سینے پر

اُس کے چہرے کی دھوپ پھیلی ہے

٭٭٭٭

خیال و خواب کے منظر سجانا چاہتا ہے

یہ دل کا اِک تازہ بہانہ چاہتا ہے

٭٭٭٭

روشنیوں کے سارے منظر جھُوٹے لگتے ہیں

لیکن اُس کی آنکھ کے آنسو سچے لگتے ہیں



٭٭٭٭

اِک چادر سخن ہی بچا کر نکل چلیں

رستہ مِلے تو شہر سے باہر نکل چلیں

٭٭٭٭

مرقدِ عشق پہ اَب اور نہ رویا جائے

رات کا پچھلا پہر ہے چلو سویا جائے

٭٭٭٭

ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبحِ وصال میں رکھے

اچھّا مولا!تیری مرضی تُو جس حَال میں رکھے

٭٭٭٭


مصنف کے بلاگ سے  کمپوزنگ فائل کا حصول ہوا

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید