انتخاب شاد عظیم آبادی



علی محمد شادؔ عظیم آبادی



ترتیب و تہذیب: اعجاز عبید


فہرست








کیوں اے فلک جو ہم سے جوانی جُدا ہوئی
اِک خود بخود جو دل میں خوشی تھی وہ کیا ہوئی

گُستاخ بلبلوں سے بھی بڑھ کر صبا ہوئی
کچھ جھُک کر گوش گُل میں کہا اور ہوا ہوئی

مایوس دل نے ایک نہ مانی امید کی
کہہ سن کے یہ غریب بھی حق سے ادا ہوئی

دنیا کا فکر ، موت کا ڈر، آبرو کا دھیان
دو دن کی زندگی مرے حق میں بلا ہوئی

موتی تمہارے کان کے تھرّا رہے ہیں کیوں
فریاد کس غریب کی گوش آشنا ہوئی

برسا جو ابرِ رحمتِ خالق بروزِ حشر
سبزہ کی طرح پھر مِری نشو و نما ہوئی

بیماریوں سے چھٹ گئے اے شادؔ حشر تک
قربان اس علاج کے، اچھی دوا ہوئی
٭٭٭



کالی کالی آنکھیں ہیں، گوری گوری رنگت ہے
لمبے لمبے گیسو ہیں، اور بھولی بھالی صورت ہے

آڑی آڑی چتون ہے اور ٹیڑھے ٹیڑھے ابرو ہیں
نیچی نیچی نظریں ہیں اور کچھ کچھ دل میں الفت ہے

رہ رہ کر گھبراتا ہے دل شام سے اُمڈا آتا ہے
تازہ تازہ عشق ہوا ہے دھیمی دھیمی وحشت ہے

حسن کی خوبی جو کچھ کہئے عیب چھپانا ہے ورنہ
جھوٹے جھوٹے وعدوں میں کچھ ایسی ویسی ذلّت ہے
٭٭٭



ایک ستم اور لاکھ ادائیں، اُف ری جوانی ہائے زمانے
ترچھی نگاہیں، تنگ قبائیں، اُف ری جوانی ہائے زمانے

ہجر میں اپنا اور ہی عالم ، ابرِ بہاراں، دیدۂ پر نم
ضد کہ ہمیں وہ آپ بلائیں، اُف ری جوانی ہائے زمانے

اپنی ادا سے آپ جھجکنا، اپنی ہوا سے آپ کھٹکنا
چال میں لغزش ،منہ میں حیائیں، اُف ری جوانی ہائے زمانے

ہاتھ میں آڑی تیغ پکڑنا تاکہ لگے بھی زخم تو اوچھا
قصد کہ پھر جی بھر کے ستائیں، اُف ری جوانی ہائے زمانے

کالی گھٹائیں، باغ میں جھولے، دھانی دوپٹے، لٹ جھٹکائے
مجھ پہ یہ قدغن آپ نہ آئیں، اُف ری جوانی ہائے زمانے

پچھلے پہر اٹھ اٹھ کے نمازیں، ناک رگڑنی ،سجدوں پہ سجدے
جو نہیں جائز ،اس کی دعائیں ،اُف ری جوانی ہائے زمانے

شاد! نہ وہ دیدار پرستی اور نہ وہ بے نشہ کی مستی
تجھ کو کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں، اُف ری جوانی ہائے زمانے
٭٭٭

سر پہ کلاہِ کج دھرے زلفِ دراز خم بہ خم
آہوئے چشم ہے غضب، ترکِ نگاہ ہے ستم

چاند سے منہ پہ خال دو، ایک ذقن پہ رخ پہ ایک
اس سے خرابیِ عرب، اس سے تباہیِ عجم

وہ خمِ گیسوئے دراز، دامِ خیالِ، عاشقاں
ہو گئے بے طرح شکار، اب نہ رہے کہیں کے ہم

عشوۂ دل گداز وہ، ذبح کرے جو بے چھری
ناز  وہ دشمنِ وفا ، رحم کی جس کو ہے قسم

دل جو بڑا رفیق تھا، وہ تو ہے دستِ غیر میں
رہ گئی ایک زندگی، وہ کہیں آرزو سے کم

نالۂ آتشیں و آہ، چشمِ تر و غبارِ دل
آتش و آب و خاک و باد، ایک جگہ ہوئے بہم

طولِ کلام بے محل، شادؔ اگرچہ عیب ہے
لکھتے ہیں کچھ اور حالِ دل ، حیف کہ رُک گیا قلم
٭٭٭

اے شبِ غم ہم ہیں اور باتیں دلِ ناکام سے
سوتے ہیں نامِ خدا، سب اپنے گھر آرام سے

جاگنے والوں پہ کیا گزری وہ جانیں کیا بھلا
سو رہے ہیں جا کے بستر پر جو اپنے شام سے

جیتے جی ہم تو غمِ فردی کی دھُن میں مر گئے
کچھ وہی اچھے ہیں جو واقف نہیں انجام سے

نالہ کرنے کے لئے بھی طبعِ خوش درکار ہے
کیا بتاؤں دل ہٹا جاتا ہے کیوں اس کام سے

دیکھتے ہو میکدے میں مے کشو ساقی بغیر
کس غضب کی بے کسی پیدا ہے شکلِ جام سے

رات دن پیتے ہیں بھر بھر کر مئے عشرت کے جام
کچھ وہی اچھے ہیں نا واقف ہیں جو انجام سے

اسمِ کو اپنے مسمیّ سے ہے لازم کچھ لگاؤ
شادؔ آخر کس طرح خوش ہوں میں اپنے نام سے
٭٭٭


کب سے پکارتا ہوں جوانی کدھر گئی
کیا زندگی کی راہ میں کمبخت مر گئی

ناحق ہے دل کو صبح شبِ غم کا انتظار
تھوڑی سی اب ہے رات بہت کچھ گذر گئی

عمر رواں کی تیز روی کا بیاں کیا
اک برق کوند کر ادھر آئی اُدھر گئی

اس سے تو تھا مرے لئے بہتر کہیں عدم
دو دن کی زندگی مجھے بدنام کر گئی

اے شاد کیا کہوں تری شیریں بیانیاں
جو بات تو نے کی مرے دل میں اُتر گئی
٭٭٭
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کر بہلایا گیا ہوں

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

سویرا ہے بہت اے شور محشر
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں

قدم اٹھتے نہیں کیوں جانب دیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں

کجا میں اور کجا اے شاد دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں
٭٭٭



ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ،اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے،آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

اے دردِ محبت کچھ تُو ہی بتا، اب تک یہ معمہ حل نہ ہو
ہم میں ہے دل بیتاب نہاں، یا آپ دلِ بیتاب ہیں ہم

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہلِ زمانہ قدر کرو، نایاب نہ ہوں، کم یاب ہیں ہم

مرغانِ قفس کو پھولوں نے اے شاد یہ کہلا بھیجا ہے
آ جاؤ جو تم کو آنا ہے ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم
٭٭٭



مصیبت جس سے زائل ہو، وہی سامان کر دے گا
نہ گھبرانا ،خدا سب مشکلیں آسان کر دے گا

خوشی سے مشکلوں کا سامنا کر، منہ نہ پھیر اے دل
ترے عقدوں کا حل ، ترا یہی اوسان کر دے گا

بشر پر منحصر کیا ، تذکرہ اس کا تو ہے ناحق
یہ عشقِ ذو فتوں، حیواں کو بھی انسان کر دے گا

تری روپوشیاں اے حسن کب بیکار جائیں گی
یہی پردہ عیاں عالم میں تیری شان کر دے گا

دلا گھبرا رہا ہے کیوں، غنیمت ہے کہ عشق آیا
ترے اے میز باں، سب کام یہ مہمان کر دے گا

کوئی گر سلطنت بھی دے تجھے ہر گز نہ لے اے دل
سُبک ہر طرح سے تجھ کو غیر کا احسان کر دے گا

یقیں کر لے کہ خود وہ جلوہ گر پردے میں ہیں ورنہ
یہ ہی ظالم گماں تیرا تجھے حیران کر دے گا
٭٭٭



اسیر جسم ہوں، میعادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم

تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
دراصل ہے مری مٹی کہاں کی کیا معلوم

سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں
مزا تو یہ ہے نہ منزل نہ راستہ معلوم

دعا کروں نہ کروں سوچ ہے یہی کہ تجھے
دعا سے پہلے مرے دل کا مُدّعا معلوم

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

کچھ اپنے پاؤں کی ہمت بھی چاہئے اے پیر
یہی نہیں تو مددگاریِ عصا معلوم

طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ
ہمیں کو آپ نہیں اپنا مدّعا معلوم
٭٭٭



نگہ کی برچھیاں جو سہ سکے سینہ اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

یہ بزم مئے ہے یاں کو تاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
٭٭٭




رباعیات

روشن ہے کہ شاد ِ سخن آرا میں ہوں
سمجھو نہ مجھے غیر تمہارا میں ہوں
مغرب میں شعاع بڑھ کے پہنچے گی ضرور
مشرق کا چمکتا ہوا تارا میں ہوں
٭٭٭


تعریف بتاؤں شعر کی کیا کیا ہے
نغموں کی صداقت اس سے خود پیدا ہے
اصلیتِ حال جس سے مخفی رہ جائے
ہشیار کہ وہ شعر نہیں دھوکا ہے
٭٭٭



ہادی ہوں میں کام ہے ہدایت میرا
دم بھرتے ہیں ارباب بلاغت میرا
میں شہر میں رہتا ہوں سند ہیں میرے شعر
منہ چومتی ہے آب فصاحت میرا
٭٭٭



مضموں میرے دل میں بے طلب آتے ہیں
قدسی طبقِ نور میں دبے جاتے ہیں
کچھ اور نہیں علم مجھے اس کے سوا
کہتا ہوں وہی جو مجھ سے کہلواتے ہیں
٭٭٭



اُستاد تھے اس فن کے انیس ؔاور دبیرؔ
جن کا نہیں آج تک زمانے میں نظیر
کیا میری سمجھ شادؔ پھر انساں ہوں میں
جنت میں ملک کرتے ہیں ان کی توقیر
٭٭٭



ہر حال میں آبروئے فن لازم ہے
تقلیدِ فصیحانِ وطن لازم ہے
دریوزہ گری ہے عیب سن لیں احباب
آپ اپنی زبان میں سخن لازم ہے
٭٭٭




جس وقت کا ڈر تھا وہ شباب آ پہنچا
ہنگامہ رحیل و پاتراب آ پہنچا
جاگو جاگو حشر تک سونا ہے
چونکو چونکو کہ وقت خواب آ پہنچا
٭٭٭



بگڑے ہوئے اس دور کے سب سج دھج ہیں
اعمیٰ ہیں اصم ہیں الکن و اعرج ہیں
نقطے سے محیط تک زاویہ کاواک
پر کار غلط ہے دائرے بھی کج ہیں
٭٭٭




اخلاق سے جہل ، علم و فن سے غافل
مضموں جو دیکھیں تو مثلِ خط باطل
اُردو اخبار کے ایڈیٹر اکثر
لکھے نہ پڑھے نام محمد فاضل
٭٭٭



تنہا ہے چراغ دور پروانے ہیں
اپنے تھے جو کل آج وہ بیگانے ہیں
نیرنگیِ دنیا کا نہ پوچھو احوال
قصّے ہیں کہانیاں ہیں افسانے ہیں
٭٭٭




بعض اہل وطن سے اب بھی دُکھ پاتا ہوں
تحصیل کمال کر کے پچھتاتا ہوں
ایسوں کی صداؤں کا کچھ اتنا نہیں وزن
کیا عرض کروں اس پہ دبا جاتا ہوں
٭٭٭


سو طرح کا میرے لئے سامان کیا
پورا اِک عمر کا ارمان کیا
سیّد سے ملا پہ مدرسہ بھی دیکھا
حالیؔ نے عجب طرح کا احسان کیا
٭٭٭



حقّا کہ وہ جادۂ وفا سے بھی پھرا
احباب و عزیز و اقرباء سے بھی پھرا
اے مدرسہ العلوم جو تجھ سے پھرا
سچ پوچھو تو خانۂ خدا سے بھی پھرا
٭٭٭



جس دل میں غبار ہو وہ دل صاف کہاں
پھر خلق کہاں وقار الطاف کہاں
جس قوم میں آگیا تعصب کا قدم
اس قوم میں اے شادؔ پھر انصاف کہاں
٭٭٭



چالاک ہیں سب کے سب بڑھتے جاتے ہیں
افلاک ترقی پہ چڑھتے جاتے ہیں
مکتب بدلا کتاب بدلی لیکن
ہم ایک وہی سبق پڑھتے جاتے ہیں
٭٭٭



بدلے نہ صداقت کا نشان ایک رہے
ہر حال میں پنہاں و نہاں ایک رہے
انساں ہے وہی جو اس دور دو رنگی سے بچے
لازم ہے کہ دل اور زباں ایک رہے
٭٭٭



ہر طرح کی دل میں چاہ کر کے چھوڑے
مشغول فغاں و آہ کر کے چھوڑے
یا ربّ کبھی اس کا گھر نہ کرنا آباد
جو غیر کا گھر تباہ کر کے چھوڑے
٭٭٭



کیوں بات چھپاؤں رند مے نوش ہوں میں
دنیا کیسی کہ دین فراموش ہوں میں
حسرت سے گروں تو پائے ساقی پہ گروں
جب خو ب شراب پی کے مدہوش ہوں میں
٭٭٭



ساقی کے کرم سے فیض یہ جاری ہے
یا پیرِ خرابات کی غم خواری  ہے
صف توڑ کے بٹ رہی ہے رندوں میں شراب
معلوم نہیں کہ میری کب باری ہے
٭٭٭



یہ وہم کسی طرح نہ معقول ہوا
افسوس یقیں بھی شک پہ محمول ہوا
اللہ ری در اندازیِ عقلِ انساں
معلوم جو تھا وہ بھی اور مجہول ہوا
٭٭٭



اس سلسلۂ شہود کو توڑ دیا
گھبرا کے عدم کی سمت منہ موڑ دیا
کب تک ان سختیوں کو جھیلا کرتی
اُکتا کے مری روح نے جی چھوڑ دیا
٭٭٭

ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید