Random Guy


حضرت بیخود ؔ دہلوی کی غزل

بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات
بات ہی کیا ہے جو رہ جاؤ یہیں رات کی رات

اس شبِ تار میں جانے کی اجازت کیا خوب
اور پھر اس پر یہ طرہ ہے کہ برسات کی رات

تکیہ خشتِ خمِ مئے فرشِ زمین بسترِ خواب
چین سے کٹتی ہے رندانِ خرابات کی رات

سرد مہری نے تری مجھ کو رلا رکھا ہے
کبھی جاڑے مین بھی آ جاتی ہے برسات کی رات

حور کے شوق میں تڑپا کئے ہم تو واعظ
کہئے کس طرح کٹی قبلہ حاجات کی رات

غیر کا ذکر کبھی ختم ہوگا کہ نہیں
یہ شبِ وصل ہے یا حرف و حکایات کی رات

ذکرِ تقصیرِ گذشتہ نہیں تعزیر سے کم
یہ نلاقات کی شب ہے کہ مکافات کی رات

اور مہمان ہے دو چار گھڑی کا بیخودؔ
آپ آرام کریں آج یہیں رات کی رات

0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں