Random Guy


ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے

مظفرؔوارثی (مظفرا لدین )

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے

سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے

اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہونچے
اس کی آنکوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے

جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے



شعبدہ گر بھی پہنتے ہے خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں