Random Guy


محسنؔ نقوی

آپ کی آنکھ میں کچھ رنگ سا بھرنا چاہے
دِل بھی خوابوں کے جزیروں سے گزرنا چاہے

کتنا دِلکش ہَے شبِ غم کی خموشی کا فسوں
زندگی آپ کی آہٹ سے بھی ڈرنا چاہے

میں لہو بن کے تیرے رنگِ قبا سے اُلجھوں
تو شفق بن کے میرے رُخ پہ بکھرنا چاہے

جشنِ نو روز ہو یا شامِ غریباں کا سکوت
دِل ہر اِک خوف کی منزل سے گزرنا چاہے

رُوٹھ جانا تو نمائش ہے سراسر وَرنہ
زندگی یُوں بھیِ تیری بات پہ مرنا چاہے

یہ الگ بات کہ آنکھوں نے اُسے دیکھ لیا
ورنہ وہ عکس میرے دِل میں اُترنا چاہے

میری تقدیر کی صورت میرے اشکوں کی طرح
وہ حسیں شخص بہر حال سنورنا چاہے

دِن کی تقدیر کا حاصل بھی وہی ہےمحسنؔ
اِک ستارا جو سرِ شام اُبھرنا چاہے
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں