Random Guy

خالدؔ کاشف کی ایک غزل

چارہ گر سارے پریشاں ہیں کہ سب کیا تھا
زخم ہنستے تھے تو بیمار بھی ہنس پڑتا تھا

مڑ کر دیکھا تو دراڑیں تھیں کئی چہروں پر
آئینے میں تو ہر اک شخص حسیں لگتا تھا

یہ میرے عہد کا منشور ستائش ٹھہرا
وہ جو اب میں نہیں ہے وہ بہت اچھا تھا

زہر اترا تھا رگ و پے میں کسی خواہش کا
سانس لیتا تھا تو ہر موئے بدن ڈستا تھا

مہرباں رات تھی تنہائی کی جنت مجھ پر
میں تھا،احباب کے اشعار تھے،سناٹا تھا

جانے کیا یاد اسے آیا تھا اس دن خالدؔ"
آئینہ سامنے رکھ کر وہ بہت رویا تھا
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں