غزل
وہ کوئی اور نہ تھا، چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصل گل پہ روئے تھے
ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم ایک دوسرے سے بچھڑے تھے
تمہارے بعد چمن پر جب ایک نظر ڈالی
کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے
تمام عمر وفا کے گنہگار رہے
یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے
شب خاموش کو تنہائی نے زباں دے دی
پہاڑ گونجتے تھے، دشت سنسناتے تھے
وہ اک بار مرے جن کو تھا حیات سے پیار
جو زندگی سے گریزاں تھے روز مرتے تھے
نئے خیال اب آتے ہیں ڈھل کے زہن میں
ہمارے دل میں کبھی کھیت لہلہاتے تھے
یہ ارتقاءکا چلن کے ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے
ندیمؔ جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھ
ایک تبصرہ شائع کریں