غزل
کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
سپرد کر کے اسے روشنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں میں لوٹ آؤں
گی
بدن کے قرب کو وہ بھی نہ سمجھ پائے گا
میں دل میں رو ¿ں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی
وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں گی کسے مناؤں گی
وہ ایک رشتہ بے نام بھی نہیں لیکن
میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں
گی
سماعتوں میں گھنے جنگلوں کی سانسیں ہیں
میں اب بھی تیری آواز سن نہ پاؤں گی
جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اس کو بھول جاؤں
گ
ایک تبصرہ شائع کریں