فیض احمد فیضؔ کی غزل
روشن
کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن
میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں
اب
بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے
رہِ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں
ٹھہری
ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ
کچھ سحر کے رنگ پُر افشاں ہوئے تو ہیں
ان
میں لُہو جلا ہو، ہمارا، کہ جان و دل
محفل
میں کچھ چراغِ فروزاں ہوئے تو ہیں
ہاں
کج کر و کلاہ کہ سب کچھ لُٹا کے ہم
اب
بے نیازِ گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں
اہلِ
قفس کی صبح چمن میں کھلے گی آنکھ
بادِ
صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں
ہے
دشت اب بھی دشت مگر خون پا سے فیضؔ
سیراب
چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں
ایک تبصرہ شائع کریں