Random Guy

ایک شکستہ روح قالب میں لیے پھرتے ہیں لوگ
(ظفرؔ مرادآبادی )
دوست زوحِ دشمنی ، قاتل شناسائی لگے
ساتھ جسکے دو قدم چلیے وہ ہر جائی لگے

سونی سونی کھڑکیاں ویران انگنائی لگے
اپنے گھر میں بھی مجھے صحرا کی تنہائی لگے

پاس جاکر دیکھیے ہر شخص نکلے ہے سراب
دور سے جو پیکرِ اخلاص و رعنائی لگے

اک شکستہ روح لیے قالب میں پھرتے ہیں لوگ
زندگی  جیسے  جنوں کی کارفرمائی لگے

بے سرے ماتم زدہ لہجے تو ہیں یارو!کہاں؟
گفتگو میں اتنی موسیقی کہ شہنائی لگے

ہر طرف نفرتیں ، یہ قتل و خوں ، یہ وحشتیں
شہر میں رہتے ہوئے انسان صحرائی لگے

اس قدر بیزار ہیں زخمِ تمنّا سے ظفرؔ
جو بھی نشتر اب ہمیں مارے مسیحائی لگے
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں