Random Guy


اسیر دشت بلا کا نہ ماجرا کہنا
(عالمتاب تشنہؔ)

اسیر دشت بلا کا نہ ماجرا کہنا
تمام پوچھنے والوں‌کو بس دعا کہنا

یہ کہنا رات گذرتی ہے اب بھی آنکھوں‌میں
تمہاری یاد کا قائم ہے سلسلہ کہنا

یہ کہنا مسند شاخ نمو پہ تھا جو کبھی
وہ پھول صورت خوشبو بکھر گیا کہنا

یہ کہنا ہم نے ہی طوفاں‌میں‌ڈال دی کشتی
قصور اپنا ہے دریا کو کیا برا کہنا

یہ کہنا ہو گئے ہم اتنے مصلحت اندیش
چلے جو لو تو اسے بھی خنک ہوا کہنا

یہ کہنا ہار نہ مانی کبھی اندھیروں‌سے
بجھے چراغ تو دل کو جلا لیا کہنا

یہ کہنا تم سے بچھڑ کر بکھر گیا تشنہؔ
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا
لیبلز: | edit post
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں