اپنے دل ہی پہ بھروسا میں سفر میں رکھوں
(راغبؔ مراد آبادي)
اپنے دل
ہی پہ بھروسا میں سفر میں رکھوں
کون ہے
راہ نما، کس کو نظر میں رکھوں
جب قدم
میں تری یادوں کے نگر میں رکھوں
یہ بھی
اک خواب ہے، سودا یہی سر میں رکھوں
کاش اتنی
در و دیوار کو وسعت مل جائے
اپنے دشمن
کو بھی میں اپنے ہی گھر میں رکھوں
لاکھ مغلوب
کرے نیند، اندھیرا کھنکے
وا درِ
چشم کو امید سحر میں رکھوں
پا برہنہ
ہیں ابھی اور بھی آنے والے
برسرِ خار
قدم راہ گذر میں رکھوں
ایک تبصرہ شائع کریں