Random Guy


فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
(آنند ناراين ملّا)

فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
خون ہي خون مجھے رنگ ِ سحر لگتا ہے

مان لوں کيسے کہ ميں عيب سراپا ہوں فقط
ميرے احباب کا يہ حسن ِ نظر لگتا ہے

کل جسے پھونکا تھا يہ کہہ کے کہ دشمن کا ہے گھر
سوچتا ہوں تو وہ آج اپنا ہي گھر لگتا ہے

احتياطاَ کوئی در پھوڑ ليں ديوار ميں اب
شور بڑھتا ہوا کچھ جانب ِ در لگتا ہے

ايک دروازہ ہے ہر سمت ميں کھلنے کے لۓ
ہو نہ ہو يہ تو مجھے شيخ کا گھر لگتا ہے
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں