Random Guy
ماجؔد دیوبندی کی ایک غزل

دل ناداں کو کون سمجھائے
کیا خبر کب کہاں مچل جائے
ڈھل گئے شام کے حسیں سائے
دیکھیے رات کیا ستم ڈھائے
دل کو ضد ہے کہ اس کی بات رہے
خواہ یہ جان ہی چلی جائے
پھر دل سادہ آج ڈھونڈتا ہے
دشت کی دھوپ میں خنک سائے
آسماں تک رہی ہے خشک زمیں
کاش بادل اٹھے برس جائے
ہچکیاں آ رہی ہے ائے ماجدؔ
آج شاید ہم ان کو یاد آئے
1 Response
  1. noor Says:

    دل کو ضد ہے کہ اس کی بات رہے
    خواہ یہ جان ہی چلی جائے

    ہچکیاں آ رہی ہے ائے ماجدؔ
    آج شاید ہم ان کو یاد آئے

    بہت عمدہ ۔ ۔


ایک تبصرہ شائع کریں