Random Guy

غزل
شمبھو ناتھ تواری

نہیں کچھ بھی بتانا چاہتا ہے
وہ آخر کیا چھپانا چاہتا ہے

رلایا ہے زمانے بھر کو اس نے
مگر خود مسکرانا چاہتا ہے

لگا کر آگ گلشن میں بھلا وہ
مکمل آشیانہ چاہتا ہے

بہا کر بےگناہوں کا لہو وہ
مسیحا کہلوانا چاہتا ہے

ذرا سی بات ہے بس روشنی کی
وہ اپنا گھر جلانا چاہتا ہے

بس اک قطرہ ہتھیلی پر سجا کر
وہ اک ساگر بنانا چاہتا ہے

زباں سے کچھ نہ بولوں ظلم سہہ کر
یہ کیا مجھ سے زمانہ چاہتا ہے

پرندے میں ابھی بھی حوصلہ ہے
فلک کے پار جانا چاہتا ہے

سبھی کی خامشی یہ کہہ رہی ہے
زباں تک کچھ تو آنا چاہتا ہے
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں