امجدؔ اسلام امجد کی ایک پیاری سی غزل
یہ رُکے رُکے سے آنسو، یہ دبی دبی سی آہیں
یونہی کب تلک خدایا،
غم زندگی نباہیں
کہیں ظلمتوں میں گھِر کر، ہے تلاشِ دست رہبر
کہیں جگمگا اُٹھی ہیں مرے نقشِ پا سے راہیں
ترے خانماں خرابوں کا چمن کوئی نہ صحرا
یہ جہاں بھی بیٹھ جائیں وہیں ان کی بارگاہیں
کبھی جادۂ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر
وہیں ڈال دی ہیں بانہیں
مرے عہد میں نہیں ہے،
یہ نشانِ سر بلندی
یہ رنگے ہوئے عمامے
یہ جھکی جھکی کُلاہیں
ایک تبصرہ شائع کریں