ایک شعر ضرب المثل بن کر ہمیشہ میرے کانوں سے ٹکراتا رہتا تھا
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اِتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
آج سرفنگ کرتے ہوئے مجھے پوری غزل دستیاب ہوئی تو اس غزل کو بہترین انداز میں ڈیزائن بھی کیا اور سوچا آپ حضرات کے ساتھ شیئر کروں۔
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
خاطر ؔغزنوی
گو
ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن
اِتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
میں
اِسے شُہرت کہوں یا اپنی رُسوائی کہوں
مُجھ
سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے
وحشتیں
کُچھ اِس قدر اپنا مُقدّر ہوگئیں
ہم
جہاں پہنچے ہمارے ساتھ وِیرانے گئے
یُوں
تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدِیک تر
آنسُوؤں
کی دھُند میں لیکِن نہ پہچانے گئے
اب
بھی اُن یادوں کی خوشبو ذہن میں محفُوظ ہے
بارہا
ہم جِن سے گُلزاروں کو مہکانے گئے
کیا
قیامت ہے کہ خاطرؔ کُشتۂ شب ہم ہی تھے
صُبح
جب آئی تو مُجرِم ہم ہی گردانے گئے
اس طرح کی اور بھی بہت ساری نادر غزلیات مندرجہ ذیل ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں