غزل
اطہر
ناسک
میں
تجھے بھولنا چاہوں بھی تو ناممکن ہے
تو
میری پہلی محبت ہے مرا محسن ہے
میں
اسے صبح نہ جانوں جو ترے سنگ نہیں
میں
اسے شام نہ مانوں کہ جو ترے بن ہے
کیسا
منظر ہے ترے ہجر کے پس منظر کا
ریگِ
صحرا ہے رواں اور ہوا ساکن ہے
تیری
آنکھوں سے تری باتوں سے لگتا تو نہیں
مرے
احباب یہ کہتے ہیں کہ تو کم سن ہے
ابھی
کچھ دیر میں ہو جائے گا آنگن جل تھل
ابھی
آغاز ہے بارش کا ابھی کِن مِن ہے
عین
ممکن ہے کہ کل وقت فقط مرا ہو
آج
مٹھی میں یہ آیا ہوا پہلا دن ہے
آج
کا دن تو بہت خیر سے گزرا ناسک
کل
کی کیوں فکر کروں کل کا خدا ضامن ہے
ایک تبصرہ شائع کریں