کبھی ہم بھیگتے ہیں۔۔۔۔
نوشیؔ گیلانی
کبھی
ہم بھیگتے ہیں چاہتوں کی تیز بارش میں
کبھی
برسوں نہیں ملتے کسی ہلکی سی رنجش میں
تمہی
میں دیوتاؤں کی کوئی خو بو نہ تھی ورنہ
کمی
کوئی نہیں تھی میرے اندازِ پرستش میں
یہ
سوچ لو پھر اور بھی تنہا نہ ہو جانا
اسے
چھونے کی خواہش میں اسے پانے کی خواہش میں
بہت
سے زخم ہیں دل میں مگر اِک زخم ایسا ہے
جو
جل اٹھتا ہے راتوں میں جو لو دیتا ہے بارش میں
ایک تبصرہ شائع کریں