Random Guy

کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہو گا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہو گا

دلِ ناداں نہ دھڑک، اے دلِ ناداں نہ دھڑک
کوئی خط لے کے پڑوسی کے گھر آیا ہو گا

گُل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو
آندھیوں تم نے درختوں کو گرایا ہو گا

کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہو گا

0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں