کون
آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہو گا
میرا
دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہو گا
دلِ
ناداں نہ دھڑک، اے دلِ ناداں نہ دھڑک
کوئی
خط لے کے پڑوسی کے گھر آیا ہو گا
گُل
سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو
آندھیوں تم
نے درختوں کو گرایا ہو گا
کیفؔ
پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب
کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہو گا
ایک تبصرہ شائع کریں