Random Guy

غزل

دِواکر راہیؔ (رگھبیر سرن)

کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہے آج بھی
رسی تو جل گئی ہے مگر بل ہے آج بھی

انسانیت کو قتل کیا جائے اس لیے
دیر و حرم کی آڑ میں مقتل ہے آج بھی

اب بھی وہی ہے رسم و روایت کی بندگی
مطلب یہ کہ ذہن مقفل ہے آج بھی

باتیں تمہاری شیخ و برہمن! خطا معاف!
پہلے کی طرح گیر مدلل ہے آج بھی

راہی! ہر ایک سمت فساد و عناد کے
چھائے ہوئے فضاؤں میں بادل ہے آج بھی 
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں