ہوشؔ ترمذی کی ایک غزل
وہ
تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک
دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا
مرنے
جینے کو نہ سمجھے تو خطا کس کی ہے
کون
سا حکم ہے جو ان کے اشاروں میں نہ تھا
ہر
قدم خاک سے دامن کو بچایا تم نے
پھر
یہ شکوہ ہے کہ میں راہگزاروں میں نہ تھا
تم
سا لاکھوں میں نہ تھا، جانِ تمنا لیکن
ہم
سا محروم ِ تمنا بھی ہزاروں میں نہ تھا
ہوش
کرتے نہ اگر ضبطِ فغاں، کیا کرتے
پرسشِ
غم کا سلیقہ بھی تو یاروں میں نہ تھا
ایک تبصرہ شائع کریں