سرور عالم راز سرورؔ کی ایک غزل
آفت
ہے مصیبت ہے قیامت ہے بلا ہے
یہ
عشقِ ستمگار خدا جانئے کیا ہے
سب
میری خطا ہے کہ زمانہ کی ہوا ہے
دل
ہے کہ اسی سوچ میں دن رات لگا ہے
سایہ
سا نگاہوں میں مری کوئی بسا ہے
للہ
بتائے کوئی آخر کہ یہ کیا ہے
کب
ہم کو ترے درد سے انکار رہا ہے
یہ
غم ہی تو اک عمر کی محنت کا صلا ہے
بدلا
ہے نہ بدلے گا یہ دستورِ زمانہ
ہے
دشت وہی اور وہی آبلہ پا ہے
”ہو
جاتی ترے آنے سے تصدیقِ بہاراں
سب
کہتے ہیں کہ یہ بھی تری ایک ادا ہے“
یوں
دل میں شش و پنج کی ہے آنکھ مچولی
جیسے
کوئی چھپ چھپ کے مجھے دیکھ رہا ہے
تم
یوں نہ کرو سرورِؔ ناکام سے نفرت
ہے
کچھ سے تو اچھا جو یہ لاکھوں سے برا ہے
ایک تبصرہ شائع کریں