منوّر رانا کی حسّاس غزل
ہر ایک آواز اردو کو فریادی بتاتی ہے
یہ پگلی پھر بھی اب تک خود کو شہزادی بتاتی ہے
کئی باتیں محبت سب کو بنیادی بتاتی ہے
جو پر دادی بتاتی تھی وہی دادی بتاتی ہے
جہاں پچھلے کئی برسوں سے کالے ناگ رہتے ہیں
وہاں چڑیا کا ایک گھونسلہ تھا دادی بتاتی ہے
ابھی تک یہ علاقہ ہے رواداری کے قبضے میں
ابھی فرقہ پرستی کم ہے آبادی بتاتی ہے
یہاں ویرانیوں کی ایک مدت سے حکومت ہے
یہاں سے نفرتیں گذری ہے بربادی بتاتی ہے
لہو کیسے بہایا جائے یہ لیڈر بتاتے ہیں
لہو کا ذائقہ کیسا ہے یہ کھادی بتاتی ہے
غلامی نے ابھی تک ملک کا پیچھا نہیں چھوڑا
ہمیں پھر قید ہونا ہے یہ آزادی بتاتی ہے
غریبی کیوں ہمارے شہر سے باہر نہیں جاتی
امیرِ شہر کے گھر کی ہر ایک شادی بتاتی ہے
میں ان آنکھوں کے میخانے میں تھوڑی دیر بیٹھا تھا
مجھے دنیا نشے کا آج تک عادی بتاتی ہے
ایک تبصرہ شائع کریں