غزل
(سرور عالم راز سرورؔ)
زمانہ کی
ادا ہے کافرانہ
جُدا میرا
ہے طرزِ عاشقانہ
ترا ذوقِ
طلب نا محرمانہ
نہ آہِ
صبح، نے سوزِ شبانہ
شباب و
شعر و صہبائے محبت
بہت یاد
آئے ہے گذرا زمانہ
"چہ نسبت خاک رابا عالم پاک"
کہاں میں
اور کہاں وہ آستانہ
بہت نازک
ہے ہر شاخ تمنا
بنائیں
ہم کہاں پھر آشیانہ
مکاں جو
ہے وہ عکس لامکاں ہے
اگر تیری
نظر ہو عارفانہ
مری آہ
و فغاں اک نے نوازی
مرا حرفِ
شکایت شاعرانہ
میں نظریں
کیا ملاتا زندگی سے
اُٹھیں،
لیکن اُٹھیں وہ مجرمانہ
ہماری زندگی
کیا زندگی ہے
مگر اک
سانس لینے کا بہانہ
مجھے دیکھو
مری حالت نہ پوچھو
مجھے آتا
نہیں باتیںبنانا
اُلجھ کر
رہ گیا میں روز و شب میں
سمجھ میںکب
یہ آیا تانا بانا
نہ دیکھو،
اس طرح مجھ کو نہ دیکھو
بکھر جاؤں
گا ہوکر دانہ دانہ
مجھے ہے
ہر کسو پر خود کا دھوکا
یہ دُنیا
ہے کہ ہے آئینہ خانہ؟
نکالو راہ
اپنی آپ سرورؔ
کبھی دُنیا
کی باتوں میں نہ آنا
ایک تبصرہ شائع کریں