Random Guy


عشق ميں عقل و ہوش کھونا تھا

(نظير اکبر آبادي)


عشق ميں عقل و ہوش کھونا تھا
کيجے کيا اب، ہوا جو ہونا تھا

شب کو آکر وہ پھر گيا
کيا اسي رات ہم کو سونا تھا

کھول دي چاہ ديدہ ِ تر نے
ياں نہ لازم پلک بھگونا تھا

اور جو ايسا ہي تھا تو گوہر اشک
ہٹ کے اغيار سے پرونا تھا

يا چھپانا نظيرؔ تھا بہتر
يا تعشق سے ہاتھ دھونا تھا

0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں