Random Guy

فرزانہ نیناںؔ
چھائی ہوئی ہیں یاس کی گہری خموشیاں
کب تک رہیں گی نصب یہ قبروں پہ تختیاں
سوکھے ہوئے درخت پہ بارش کا تھا کرم
نشے سے بھر گئیں مرے گلشن کی ڈالیاں
حالات نے جو بیج مرے دل میں بوئے ہیں

پھوٹا کریں گی ان میں سے شبنم کی بالیاں

احساس تک نہیں تمہیں، جھونکا اداس سا

اک بار تم کو چھونے سے ہوتا ہے خوش گماں

ہم سب کو تشنگی نے کیا اس طرح نڈھال

یک لخت سب نے منہ سے لگائیں پیالیاں

پھر بانسری بجی ہے کہیں درد سے بھری

پھر رو پڑی ہیں میرے خیالوں کی شوخیاں

کیا اب کوئی چراغ افق پر رہا نہیں

صدیوں سے آ رہی ہیں جو تاریک بدلیاں

خیمے اُکھیڑتے ہوئے سانسیں اُکھڑ گئیں

کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں

نیناں، وہ کس لگن سے تجھے کر رہا ہے یاد

تجھ کو جو آ رہی ہیں لگاتار ہچکیاں


0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں