Random Guy

غزل
(اخترؔ
 شیرانی)

بھلا کیوں کر نہ ہو ں راتوں کو نیندیں بیقرار اُس کی
کبھی لہرا چکی ہو جس پہ زلفِ مشکبار اس کی

اُمید وصل پر ، دل کو فریب صبر کیا دیجے؟
ادا وحشی صفت اس کی ،نظر بیگانہ وار ، اس کی!

جفائے ناز کی میں نے شکایت ہائے کیوں کی تھی
مجھے جینے نہیں دیتی نگاہِ شرمسار اس کی!

محبت تھی، مگر یہ بیقراری تو نہ تھی پہلے!
الہٰی! آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اُس کی

کوئی کیوں کر بھلادے، ہائے ایسے کی محبت کو
وفائیں، دلنواز اُس کی ! جفائیں خوشگوار اُس کی

ہمیں عرضِ تمنا کی جسارت ہو تو کیوں کر ہو؟
ادائیں فتنہ ریز اس کی! نگاہیں، حشر بار اُس کی

برا ہو، اس تغافل کا کہ تنگ آکر یہ کہتا ہوں
مجھے کیوں ہو گئی الفت ، مرے پروردگار اس کی؟

مئے الفت کے مستانوں کو میخانے سے کیا مطلب؟
ادا ، روحِ نشاط اُس کی! نطر، جانِ بہار اُس کی!

یہاں کیا دیکھتے ہو ، ناصحو! گھر میں دھرا کیا ہے
مرے دل کے کسی پردے میں ڈہونڈھو یادگار اس کی

تغافل کا گلہ، کس کو نہیں، کس کس کو سمجھاؤں
نگاہیں منتظر اُس کی! اُمیدیں، بیقرار اُس کی!

مجھے تو عشق پیچاں! ایسے بل کھانے نہ آتے تھے
بتا کیا تجھ پہ لہرائی ہے زلفِ مشکبار اُس کی؟

انہیں کوچوں میں کل اخترؔ کو رسوا ہوتے دیکھا تھا
وہ آنکھیں اشکبار اُس کی، وہ باتیں دلنگار اُس کی!

لیبلز: | edit post
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں