نہ صبا کی دوستی ہے نہ فضا کی ہمدمی ہے
(بسملؔ
صابری )
نہ صبا
کی دوستی ہے نہ فضا کی ہمدمی ہے
جہاں پھول
کِھل رہے تھے وہاں دُھول اب جمی ہے
ہوئے ہم
قریب لیکن ہیں نصیب اپنے اپنے
تیرے لب
پہ مسکراہٹ مری آنکھ میں نمی ہے
تجھے پا
لیا ہے میں نے مگر اب بھی سوچتی ہوں
میری زندگی
میں شاید کسی چیز کی کمی ہے
وہ سُرور
اول اول یہ غرور آخر آخر
وہ کرم
بھی تھا ضروری یہ ستم بھی لازمی ہے
میری چشم تر پہ بسملؔ نہ رکھو تم اپنا دامن
یہ گھٹا
برسنے والی کہیں اِس طرح تھمی ہے
ایک تبصرہ شائع کریں