آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید
ننھا کمپیوٹر، قلم، کاغذ، کتابوں کی جگہ
اس قدر سوچا نہ تھا ہو جائیں گے بچے جدید
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِقدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
ہو گیا محروم بینائی سے بھی اب آخرش
دیکھتا تھا رات دن وہ آدمی سپنے جدید
دادی اور نانی کے قصّوں میں مزہ اتا نہیں
اب سناتے ہیں مرے بچّے انھیں قصّے جدید
کیوں نہیں لے جاتی اب وحشت بھی صحرا کی طرف
بن گیا کیوں شہر از خود آج صحرائے جدید
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدی
ایک تبصرہ شائع کریں