غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
الطاف کی بارش ہے گمراہ شریروں پر
طوفاں ہیں مصائب کے نیکی کے سفیروں پر
جب زیست میں آئے گا، دیکھے گا تعجب سے
بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر
رہتا ہوں تخیل میں سائے میں ستاروں کے
لکھی ہے مری قسمت شنبنم کی لکیروں پر
بے نام غریبوں کی پروا ہے یہاں کس کو
انعام برستے ہیں بد نام امیروں پر
منزل ہے فقط انکی خود اپنی ہوس پرسی
پھر کیسے بھروسہ ہو ان جیسے مشیروں پر
شیطاں کے وساوس سے کس طرح بچا جائے
اک بار مسلسل ہے لاچار ضمیروں پر
اے وقت! تمنا ہے ہم کو بھی اسی پل کی
کب ابر کرم برسے ہم ایسے حقیروں پر
اک جہد مسلسل ہو میدان حقیقت میں
کیوں پھرتے ہیں آوارہ خوابوں کے جزیروں پر
ہشیار تھے دشمن سے، سوچا نہ تھا یہ لیکن
"جاوید" لکھا ہوگا احباب کے تیروں پر
ایک تبصرہ شائع کریں