Random Guy

 

قدیم تخت پہ لکھیں روایتیں پڑھ کر

شجر بھی رات کو روتے ہیں آیتیں پڑھ کر

 

چراغ بام پہ اوندھے پڑے ہوئے ہیں یہاں

ہوا بھی چیخ رہی ہے عبارتیں پڑھ کر

 

تمام خواب حقیقت پہ کھل رہے ہیں ابھی

کوئی جواب نہیں ہے شکایتیں پڑھ کر

 

کوئی وجود میسر نہیں ابھی مجھکو

بھٹک رہا ہوں میں دنیا کی نسبتیں پڑھ کر

 

 

قدم قدم پہ اذیت کا رقص جاری ہے

بتا یہ خواب کی تعبیر وحشتیں پڑھ کر

 

میں خواب خواب سجاتا ہوں وقت کا سینہ

گزشتہ قوم پہ گزری حکایتیں پڑھ کر

 

ستارے آن گرے خواب گاہ میں ساگر

سو آگئی ہے قیامت، قیامتیں پڑھ کر

 

 

کامران اسیر ساگر

0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں