Random Guy

غزلِ امجدؔ اسلام امجد 

نہ ربط ہے نہ معانی ، کہیں تو کس سے کہیں!
ہم اپنے غم کی کہانی ، کہیں تو کس سے کہیں!

سلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ
یہ سوزِ دردِ نہانی کہیں تو کس سے کہیں!

نہیں ہے اہلِ جہاں کو کو خود اپنے غم سے فراغ
ہم اپنے دل کی گرانی کہیں تو کس سے کہیں!

پلٹ رہے ہیں پرندے بہار سے پہلے
عجیب ہے یہ نشانی کہیں تو کس سے کہیں!

نئے سُخن کی طلبگار ہے نئی دُنیا
وہ ایک بات پرانی کہیں تو کس سے کہیں

نہ کوئی سُنتا ہے امجد نہ مانتا ہے اسے
حدیثِ شامِ جوانی کہیں تو کس سے کہیں!

2 Responses
  1. نہیں ہے اہلِ جہاں کو کو خود اپنے غم سے فراغ
    ہم اپنے دل کی گرانی کہیں تو کس سے کہیں!

    پلٹ رہے ہیں پرندے بہار سے پہلے
    عجیب ہے یہ نشانی کہیں تو کس سے کہیں!

    نئے سُخن کی طلبگار ہے نئی دُنیا
    وہ ایک بات پرانی کہیں تو کس سے کہیں

    نہ کوئی سُنتا ہے امجد نہ مانتا ہے اسے
    حدیثِ شامِ جوانی کہیں تو کس سے کہیں!


    بہت خوب


  2. Random Guy Says:

    پسند فرمانے کے لیے بہت شکریہ ؐحمد احمد صاحب !


ایک تبصرہ شائع کریں