Random Guy

غزلِ جاوید اختر 


درد کے پھول بھی کھِلتے ہیں بِکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بَھر جاتے ہیں

راستہ روکے کھڑی ہے یہی اُلجھن کب سے
کوئی پُوچھے تو کَہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں

چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں میرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکرا کے بِکھر جاتے ہیں

نرم الفاظ بھلی باتیں مہذّب لہجے
پہلی بارش ہی میں یہ رنگ اُتر جاتے ہیں

اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھُکائے ہوئے چُپ چاپ گزر جاتے ہیں

2 Responses

  1. ARSH Says:

    KABI KHAMOSH BAITI GY ,


ایک تبصرہ شائع کریں