تابشؔ
اِسی لیے مرا سایہ مجھے گوارا نہیں
یہ میرا دوست ہے لیکن مرا سہارا نہیں
یہ مہر و ماہ بھی آخر کو ڈوب جاتے ہیں
ہمارے ساتھ کسی کا یہاں گذارا نہیں
ہر ایک لفظ نہیں تیرے نام میں شامل
ہر ایک لفظ محبت کا استعارہ نہیں
تم ہی سے چلتے ہیں سب سلسلے تعلق کے
وہ اپنا کیسے بنے گا کہ جو ہمارا نہیں
اور اب برہنگی اپنی چھپاتا پھرتا ہوں
مرا خیال تھا میں خود پہ آشکارا نہیں
ابھی میں نشۂ لاحاصلی میں رہتا ہوں
ابھی یہ تلخئ دنیا مجھے گوارا نہیں
لیے تو پھرتا ہوں آنکھوں میں ناتمام سا نقش
اُسے مٹاؤں گا کیسے، جسے ابھارا نہیں
زمیں کا حُسن مکمل نہ ہو سکا تابشؔ
کہیں چراغ نہیں ہے، کہیں ستارہ نہیں
(میں کوشش کے باوجود یہ معلوم نہیں کر سکا کہ یہ غزل تابش لکھنوی کی ہے یا تابشؔ عباس کی اگر کوئی صاحب نظر واقف ہو تو از راہ کرم مطلع فرمائیں)
ایک تبصرہ شائع کریں