داغ ؔدہلوی کی ایک غزل
خاطر
سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی
قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دل
لے کے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں
اُلٹی
شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا
دیکھا
ہے بُت کدے میں جو اے شیخ! کچھ نہ پوچھ
ایمان
کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
افشائے
رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن
اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا
گو
نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ
کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزمِ
عدو میں صورتِ پروانہ دل مرا
گو
رشک سے جلا ، تیرے قربان تو گیا
ہوش
و ہواس و تاب و تواں داغؔجا چکے
اب
ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا
ایک تبصرہ شائع کریں