Random Guy


غزل کے دل میں بسے،نظم کی نظر میں رہے
(بشیر بدر )

غزل کے دل میں بسے، نظم کی نظر میں رہے
دیارِ لوح و قلم میں سدا خبر میں رہے

ہمارے حال پہ چڑیوں نے مہربانی کی
کٹے پھٹے نہیں جو پھل کہاں شجر میں رہے

تمام مُلک اندھیرے میں ڈوب جائے تو کیا
وہ چاہتے ہیں کہ سورج اُنہی کے گھر میں رہے

وطن میں پھرتے رہے ہم مہاجروں کی طرح
عجب نصیب ہے، ہر دور میں سفر میں رہے


تھا شوق گریہ جنہیں کھُل کے رو نہیں پائے
کبھی انیس، کبھی میر کے اثر میں رہے

کس احتیاط سے یہ زندگی گزار چلے
کسی کے دل میں رہے ہم کسی کے گھر میں رہے

غزل میں بے ادبی ہے برہنہ گفتاری
تمام پردہ شائستگی سبز میں رہے
لیبلز: | edit post
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں